تحریر: مولانا جوہر عباس خان
حوزہ نیوز ایجنسی | کچھ مسلمان خوش ہیں کہ شیعہ گیا اور کچھ کے اداس ہونے کی وجہ بھی بلا تشبیہ وہی ہے، حالانکہ شیعہ سنی دونوں معصوم ہیں۔
معاویہ کا شہر معاویہ والوں نے لے لیا" کہنے والوں کو شام کی تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے، ابن عساکر کی اسّی جلدیں نہیں گوگل سے بھی کام چل جائے گا۔
بشار الاسد کے زوال کی اصل وجہ فوج کی کمی نہیں ہے اور باغیوں کی دلیری تو بالکل بھی نہیں۔
اس لیے کہ بشار الاسد کے جانے کی وجہ الگ ہے اور باغیوں کے ریپڈ ایڈوانس کی وجہ الگ ہے۔
بشار الاسد کے زوال کی وجہ ہے، اسٹیک ہولڈرز کا مشترکہ فیصلہ اور مسلحین کی سرپٹ دوڑ کی وجہ ہے، شامی عوام کا بشار الاسد سے تنگ ہونا ہے۔
اگر یہ دو امور نہ ہوتے تو اسد نہ جاتا یا دیر میں جاتا۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بین الاقوامی جیو پولیٹکس میں عقیدے نہیں چلتے۔ اسد موصوف بھی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے تھے اور مابقی عقائد سن کر تو شیعہ سنی دونوں ہی آنکھ کان بند کرلیں۔
لہٰذا عام ہندوستانی تاثر کے برخلاف نہ تو ایران اسد کو شیعہ سمجھ کر سپورٹ کررہا تھا اور نہ ہی سیریائی عوام اس کے شیعہ ہونے سے عاجز تھے۔ اصل مسئلہ اسد کی سخت گیری تھی، طاقت کے بے دریغ استعمال میں اس کی مثال خطے کی حالیہ تاریخ میں شاید ہی مل سکے، لہٰذا باغیوں کو عوامی حمایت ملتی چلی گئی۔
اس تیز ترین سقوط کی ابتدائی سطریں تو اسد کی بعض ہوشیاریوں نے پہلے ہی رقم کردی تھیں۔ مثلاً حزب اللہ پر حملوں کے وقت مکمل خاموش رہا۔ اور سال بھر اسرائیل کی طرف سے آنکھیں موندے رکھیں، روس یوکرین تنازعے میں بھی حتمی رائے دینے سے گریز کرتا رہا، غالبا ایک فالٹ لائن پر رہتے ہوئے بھی اپنی ہانڈی الگ پکانے کا موڈ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب نمازِ خوش بختی کا سلام پھیرا تو دائیں بائیں کوئی سرپرست نظر نہ آیا۔
کسی بڑے ملک کے بیچ میں نہ کودنے کے پیچھے بھی جائز وجوہات ہیں۔
قدرتی وسائل والے علاقے پہلے ہی کردوں کے پاس ہیں۔ سو امریکا "ناٹ آور وار" کہہ کے مراقبے میں چلا گیا۔ روس کے پاس وسائل نہیں اور ایران کو اسد کی جانب سے کوئی یقین دہانی نہیں, لہٰذا صرف جغرافیائی فائدہ اٹھانے کیلئے اسد کی چنداں ضرورت نہیں،یہ کام باغی بھی کرسکتے ہیں۔ ایسے میں محض بھل مانسی کے دم پر Death or Desert میں کودنا کون پسند کرے گا۔
ایران کو امید ہے کہ جو کام اسد سے ممکن نہیں تھا وہ نئی حکومت سے لیا جاسکتا ہے، اب اگر کوئی یہ سوچے کہ کل کلاں کو جولانی مکر گیا تو کیا ہوگا۔ ایسی صورت میں جولانی کی راہ بھی کچھ آسان نہیں۔
اول تو حکومت کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، عوامی مقبولیت کم ہوتے ہی اس ٹوٹے پھوٹے ملک کو سنبھالنا راتوں کی نیند اڑا دے گا۔
دوسرے یہ گروپس بھی شدید آپسی تقسیم کا شکار ہیں، نظریاتی بھی اور سیاسی بھی۔ ایسے میں کسی پڑوسی ملک کیلئے ایک باغی گروپ کی زمینی سپورٹ کرکے سیریا کو لیبیا بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
یوں بھی ایرانی اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان ٹرمپ کے آنے سے پہلے کر لینا چاہتے ہیں، جولانی کے مکرنے سے یہ کام اور آسان ہو جائے گا۔
یقینا یہ رجیم چینج مفصل ڈیل کا نیتجہ ہے کہ شیعہ عوام اور ان کے مقدس مقامات محفوظ ہوں گے۔ طالبان سے بھی اسی نہج پر تعلقات بحال کئے گئے تھے کیوں کہ دونوں کو ضرورت تھی۔ اور ارباب حکومت کے درمیان عقائد سے قطع نظر، یہی ہوتا چلا آیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ فی الوقت ایران، اسرائیل، ترکی، روس اور امریکا سب شام کی بساط الٹ کر نئی پچ پر بیٹنگ کرنا چاہتے ہیں اور کسی کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں جب تک کہ نئی حکومت اپنا اگلا داو نہ چل دے۔
اب اگر آئندہ دنوں میں باغی شام میں ایرانی آثار پہ مکمل جھاڑو پھیر دیتے ہیں تو یقینا باغیوں کی یہ کامیابی ایران کی بہت بڑی ناکامی ہے لیکن اگر ایران اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو پھر سب کچھ ٹھیک ہے صرف ہمیں دماغ پیدا کرنا ہوگا۔
بس اس دوران غربت کے مارے عوام کو ہونے والی ہولناک تکالیف اب ان کا مقدر ہیں، کیونکہ اگلے چند مہینوں میں شام کے اس نئے سیٹ اپ کو ان چار میں سے کوئی ایک جنگ لڑنا ہی ہے۔