حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ماضی میں غاصب اسرائیل نے بارہا دعویٰ کیا تھا کہ دمشق صیہونیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، لیکن سوال یہ ہے غاصب اسرائیل نے بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے فوراً بعد بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے، شامی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا کیوں شروع کیا؟
واضح رہے نام نہاد مسلمانوں کے بقول ان کے فاتح اور مسلح گروہ تحریر الشام کی قیادت، غاصب صیہونی ریاست کی شام پر جارحیت پر مکمل خاموش ہے، بلکہ جولانی نے امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا مسئلہ صیہونی حکومت نہیں، بلکہ حزب اللہ اور بشار الاسد حکومت کے باقی ماندہ عناصر ہیں۔
کہیں جولانی اس سازش میں ملوث تو نہیں ہے؟
غاصب اسرائیلی فوج کی جانب سے شام کے فوجی اہداف پر فضائی اور توپ خانے سے کیے جانے والے حملے اب تک کے بے نظیر حملے ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد، اسرائیل نے شام کے فوجی مقامات پر 300 سے زیادہ حملے کیے ہیں، جس پر سوال اٹھتا ہے کہ غاصب اسرائیل شام کی فوجی قوت کو اس حد تک کیوں نشانہ بنا رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا مقصد ہو سکتا ہے؟
رائیٹرز اور روسیا الیوم کی رپورٹس کے مطابق، غاصب اسرائیلی فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ جنوبی دمشق کے متعدد دیہات اور قصبے بھی اسرائیلی فوج کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔ غاصب اسرائیلی افواج کی جنوبی دمشق کی طرف پیش قدمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل دمشق کو ایک نیا خطرہ سمجھ رہا ہے۔ علاوہ ازین صیہونی فوج نے شامی فوجی تنصیبات پر جنگی طیاروں اور ڈرون کے ذریعے حملوں کو نشانہ بنایا ہے۔
غاصب اسرائیل کے حملے صرف فضائی بمباری تک محدود نہیں تھے، بلکہ اس نے شام کے اہم فوجی اڈوں، دمشق، حمص، قامیشلی اور لاذقیہ میں بھی اسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے، جس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ غاصب اسرائیل کے اقوام متحدہ میں نمائندے ڈینی دانون نے ان حملوں پر کوئی بات نہیں کی، صرف جولان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنی سیکیورٹی کے لیے محدود اقدامات کیے ہیں۔
غاصب اسرائیل نے جولان کو ایک اسٹراٹیجک مقام کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے، جبکہ جولان کے پہاڑ کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ گئی ہے، کیونکہ یہ شام اور لبنان کی سرحد پر واقع ہے اور اسے مشرقی بحیرہ روم میں سب سے بلند اور اسٹریٹیجک مقام سمجھا جاتا ہے۔
جولان تا دمشق
ماضی میں غاصب اسرائیل نے جولان کو اپنے لیے ایک دفاعی خطرہ قرار دیا تھا، لیکن اب اسرائیل نے ان علاقوں پر حملے شروع کر دیئے ہیں جو اسرائیل کی سرزمین کے قریب بھی نہیں ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب اسرائیل شام کی فوجی طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان تمام حملوں اور خطرات کے باوجود ہیت تحریر الشام نے تاحال چپ کا روزہ رکھا ہے اور اپنی طرف سے شام کے دفاع کے لیے کوئی کوشش نہیں کی ہے۔
بچوں کا قاتل صیہونی وزیرِ اعظم نتن یاہو نے حال ہی میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور شام کے درمیان 1974 میں ہونے والا معاہدہ اب غیر مؤثر ہو چکا ہے اور اسرائیل اس پر مزید عمل نہیں کرے گا۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے جولان میں اپنی فوج کی تعداد بڑھا دی ہے، جس پر اقوام متحدہ نے تنقید کی ہے اور 1974 کے معاہدے کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ صیہونی حکومت کے غیر اخلاقی رویے سے بخوبی واقف ہے، اسی لئے اس علاقے میں اپنی امن فوج باقی رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجرک نے صیہونی فوج کی جولان کی پہاڑیوں پر موجودگی کو 1974 کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، اسی طرح حزب اللہ، ایران، کویت، قطر، اردن اور یمن نے بھی شامی علاقوں پر صیہونی قبضے کی مذمت کی ہے۔
ماضی کے تجربات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صیہونی حکومت خطے کی تازہ صورتحال سے غلط فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے عین ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج پر بھی حملہ کرے، جبکہ دوسری طرف امن فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے ان کی ڈیوٹیوں میں تبدیلی سے پہلے جولان کی پہاڑی کو ترک نہیں کیا جائے گا۔
بہانے اور سازشیں
امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کے درمیان پس پردہ ہماہنگی جاری ہے، تاکہ شامی فوجی تنصیبات پر صیہونی فوج کے حملوں کو جائز قرار دیا جائے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے امریکی فوجی سینٹرل کمانڈ کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل کے علاوہ امریکہ نے بھی شام کے 80 سے زائد مقامات پر حملہ کیا ہے، تاکہ داعش کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
دوسری طرف غاصب صیہونی حکام نے کچھ اور بہانہ بنایا ہے۔ صیہونی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ شامی فوج کے ہتھیار دشمن کے ہاتھ لگنے سے بچنے کے لئے حملہ کیا جارہا ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق، غاصب صیہونی حکام کا خیال ہے کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ایران اور حزب اللہ کے شام میں اثرات پائے جاتے ہیں۔
غاصب صہیونی حکومت کے یہ بہانے کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہیں، کیونکہ اس وقت شام کا کنٹرول دوسری طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔
اردوغان اور جولانی خاموش تماشائی کیوں؟
جب تحریر الشام کے مسلح جنگجووں نے حلب میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا تھا، تو انہوں نے فلسطینیوں کے علاوہ ہر چیز کی توہین کی تھی۔ اس طرح انہوں نے عملی طور پر دکھایا کہ ان کی دشمنی ایران کے ساتھ ہے، جبکہ وہ فلسطین کے حامی ہیں، لیکن جب غاصب اسرائیل نے ان کے زیر قبضہ علاقوں کو نشانہ بنایا، تو وہ خاموش ہیں۔ اس خاموشی کو اسرائیل اور تحریر الشام کے درمیان کسی معاہدے کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے، تاکہ شام کی دفاعی صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کیا جا سکے اور شام اپنی دفاعی ضرورت پوری کرنے کے لئے ترکی، امریکہ اور صیہونی حکومت کا محتاج رہے۔
ترکی بھی جو تحریر الشام اور دیگر مسلح گروپوں کی حمایت کرتا آیا ہے، اسرائیلی فضائی حملوں پر خاموش ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی موجودہ صورتحال سے راضی ہے۔
غاصب اسرائیل نہ صرف ایران اور مزاحمت کے محور کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، بلکہ اس کے حملے شام اور ترکی کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ترکی اور تحریر الشام آئندہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف کیا مؤقف اپناتے ہیں۔