تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | بابری مسجد کے فیصلے کے بعد ہم نے یہ باور کرلیا تھا کہ اب مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین تنگ کردی جائے گی۔ یہ معاملہ مندر مسجد کا نہیں تھا، بلکہ دو قوموں کے وقار کا مسئلہ تھا۔ ہندوستانی حکومت اور سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے وہی طریقہ کار اپنایا جو ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنایا تھا۔ بقول رسل: کئی عہدیدار اس خیال کی پرزور حمایت کرنے لگے تھے کہ دہلی کی جامع مسجد کو منہدم کردیا جائے، تاکہ اہل ایمان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ ہندوستان میں ان کا وقار کس قدر مجروح ہو چکا ہے۔
ایک گورنر جنرل نے تو تجویز بھی پیش کردی تھی کہ تاج محل کو منہدم کرکے اس کی سلوں کو فروخت کردیا جائے۔ موجودہ حکومت کا طر ز عمل بھی یہی ہے کہ مسلمانوں پر یہ واضح کردیا جائے کہ ان کا سیاسی اور سماجی وقار ختم ہوچکاہے ،مگر مسلمان یہ نوشتۂ دیوار پڑھنے پر تیار نہیں ہیں ۔ان کی قیادت بے حسی کے تحت الثریٰ میں ہے اور فرقہ پرست طاقتوں سے مکالمے اور مفاہمت پر زور دے رہی ہے ۔جب کہ مخالف نہ مکالمے پر آمادہ ہے اور نہ مفاہمت پر ۔اب تو نوبت یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ ہمارا پرسنل لاء بھی ان کے نشانے پر ہے ۔یہ جرأت تو کبھی انگریزوں نے بھی نہیں کی تھی جس راہ میں موجودہ حکومت پیش رفت کررہی ہے ۔اس پر یہ کہ عدالتیں جن پر انصاف کا دارومدار ہوتا ہے، اس کے جج فرقہ پرستوں کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور علیٰ الاعلان کہتے ہیں کہ ’یکساں سول کوڈ‘ بل ہر حال میں پاس ہوکر رہے گا۔
آلہ آباد ہائی کورٹ کے بر سرکار جج جسٹس شیکھر کمار نے جس طرح ویشوو ہندوپریشد کے پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے آئین ہند کا تمسخر کیا،اس پر ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔انہوں عوامی پلیٹ فارم پر یہ بیان دیا جب کہ عدالتیں مسلسل یک طرفہ فیصلے سنا رہی ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ تمام جج جسٹس شیکھر کمار کی طرح ہوتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو کب کا انصاف کا جنازہ اٹھ چکا ہوتا، لیکن شیکھر کمار جیسے منصف کم نہیں ہیں جو فرقہ پرست طاقتوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ فرمانا کہ ’’اکثریتی طبقے کی مرضی کے مطابق قانون بننا چاہیے‘‘فاشسٹ طاقتوں کے زیر اثر ہونے کی دلیل ہے ۔وہ اسی پر نہیں رُکے اور کہاکہ اگر ا س دیش کو کوئی ’ویشو گرو‘بناسکتاہے تو وہ صرف ہندو ہیں ۔انہوں نے بی جے پی کے انتخابی نعرے ’ایک رہیں گے تو سیف رہیں گے‘ کی بھی تائید کی ۔انہوں نے ذبیحہ خانوں اور گوشت خوری پر بھی پابندی کا مطالبہ کیا ۔ان کا یہ کہنا کہ ہم تو اپنے بچوں کو جانوروں سے پیار کرنا سکھلاتے ہیں مگر وہ(مسلمان) بچوں کے سامنے جانوروں کو ذبح کر دیتے ہیں، اس بات کا غماز ہے کہ وہ خالص ہندوتوا طبقے کو خوش کرنے کے لئے تقریر کررہے تھے ۔انہوں نے مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت کو جائز ٹھہراتے ہوئے اعتماد کے ساتھ کہاکہ یکساں سول کوڈ پاس ہوکر رہے گا۔شیکھر کمار کوتو شاید اس بات بھی کا علم نہیں ہوگاکہ ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ضرور ہیں مگر دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ان کے بعد دیگر قومیں اور ذاتیں ہیں جو الگ الگ مذہب اور رسومات کی پیروی کرتی ہیں، لہذا مسلمانوں اور دیگر قوموں اور ذاتوں پر ہندوئوں کے پرسنل لاء کو ’یکساں سول کوڈ‘ کے نام پر تھوپا نہیں جاسکتا ۔وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ یہ بل بہت جلد منظور ہوگا ۔ان کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ’یکساں سول کوڈ ‘ آرایس ایس کاتیار کیا ہوا بل ہے جس کی وکالت کے لئے اب عدلیہ کے برسر ججوں کو کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ممکن ہے کل یہ بل پاس ہو جائے مگر کیا ہندوستان کے متنوع سماج میں اس کا نفاذ ہوسکے گا،یہ دیکھنا اہم ہوگا۔جسٹس شیکھر کمار کا یہ فرمانا ملک کا قانون نہ صرف اکثریت کے مطابق کام کرتاہے بلکہ اکثریت کو جس سے مسرت حاصل ہوتی ہے ،اسی کو قبول کیاجائے گا۔ گویا کہ انہوں نے آئین ہند کے بجائے آرایس ایس کے زیر غور آئین کے جواز پر مہر لگادی ہے ،جس کے کئی مسودے دھرم سنسدوں میں پیش ہوچکے ہیں ۔
شیکھر کمار نے رام مندر کی تعمیر کو آباواجداد کے خواب کی تعبیر قرار دیدیا۔ رام مندر کی تعمیر ضرور ہورہی ہے مگر اس کی بنیادوں کے نیچے ہمیشہ مسجد کے نشان ملیں گے ،جس کو تاریخ کبھی بھلا نہیں پائے گی۔ بابری مسجد کا فیصلہ یقیناً مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی وقار کے خاتمے کا اعلان تھا، مگر حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ۔بہرکیف!شیکھر کمار کی پوری تقریر آئین ہند کے منافی تھی ۔اس پر ایسے پروگراموں میں ان کا شریک ہونا بھی زیر سوال ہے ،مگر اس کا آغاز تو سابق چیف جسٹس چندر چوڈ کر چکے تھے ۔ان کے گھر پر وزیر اعظم مودی کا پوجا میں شامل ہونا اس بات کی دلیل تھی کہ وہ وزیر اعظم کے ’اندھ بھکت ‘ ہیں اور اندھ بھکت کبھی منصفانہ فیصلے نہیں سنا سکتا۔ اول تو جب سے ریٹائرمنٹ کے بعد ججوں کو سرکار کی طرف سے مختلف عہدوں اور مراعات کی توقع رہنے لگی ہے، عدلیہ کی آزادی زیر سوال آگئی ہے۔ رنجن گوگوئی نے بابری مسجد کا فیصلہ حکومت اور آرایس ایس کی مرضی کے مطابق سنایا تو اس کا صلہ انہیں ’راجیہ سبھا‘ کی رکنیت کے طور پر دیاگیا۔جب تک ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد عہدے اور منصب کی لالچ رہے گی تب تک عدلیہ آزاد نہیں ہوگی ۔آزادی تو خیر دور کی بات ہے اس کے فیصلے غیر جانب دار نہیں ہوں گے ۔
اہم یہ ہے کہ آرایس ایس نے حکومت کے ہر شعبے میں اپنے افراد مقرر کر رکھے ہیں، یہی اس کی کامیابی کا بڑا راز ہے۔ آزادی کے بعد آرایس ایس نے ہندوئوں کی ذہن سازی پر محنت کی اور انہیں ’ہندتووا‘ کے ایجنڈے پر متحد کرنے کی کوشش کی ۔اس نے ہر شہر اور قصبے میں اسکول اور کالج قائم کئے ،جہاں تعلیمی ادارے کھولنے میں کامیابی نہیں ملی وہاں شاخیں قائم کیں۔ اپنا الگ نصاب تعلیم رائج کیا اور ایسے افراد تیار کئے جو اس کے ایجنڈے کو مختلف طریقوں سے نوجوان نسل کے ذہنوں تک منتقل کرسکیں ۔اس کے لئے اساتذہ ،مقررین ،مصنف اور اپنے تربیت کردہ لوگوں کا بڑا گروہ تیار کیا۔خاص طور پر بچوں اور نوجوان نسل کو مورد ہدف قرار دیا کیونکہ نرم شاخ کو اپنی مرضی کے مطابق موڑا جاسکتا ہے ۔ان کے تعلیمی اداروں سے صرف ہندوئوں نے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ دیگر اقوام ومذاہب کے بچے بھی فیض یاب ہوئے ۔اس طرح انہوں نے اپنی ٹیم تیار کرکے ہندوستان کے مختلف شعبوں اور اداروں میں افراد کو مقرر کرنا شروع کردیا ۔امتداد وقت کے ساتھ کوئی ایسا حکومتی ادارہ نہیں رہا جہاں اس کے تربیت یافتہ افراد موجود نہ ہوں ۔اس کے بعد اس کی کامیابی کا دوسرا دور شروع ہوا اور آج آرایس ایس اقتدار پر مسلط ہے ۔کہنے کو تو آرایس ایس سیاسی سرگرمیوں سے انکار کرتی ہے مگر اس کا بنیادی ہدف ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ اور آئین ہند میں ترمیم ہے ۔پہلا ہدف اس نے حاصل کر لیا ہے اور دوسرے ہدف کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔
آئین ہند کو بدلنا اتنا آسان تو نہیں ہے، مگر اب ناممکن بھی نہیں۔ جس ملک میں عدلیہ، انتخابی کمیشن،خفیہ ایجنسیاں ،سکیورٹی فورسیز اور ایوان پر اس کا براہ راست قبضہ ہے، اس ملک میں اس کے لئے کسی بھی ہدف تک پہونچنا ناگزیر نہیں ۔گزشتہ دس سالوں میں اس نے اپنے اکثر اہداف کو کامیابی کے ساتھ حاصل کیاہے۔خاص طور پر بابری مسجد کے فیصلے کے تناظر میں اس حقیقت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ۔ایک وقت وہ تھاکہ جب مسلم دانشور بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے تھے کہ ہندومسلم اتحاد کے لئے مسلمانوں کو بابری مسجد سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ بابری مسجد کے فیصلے سے پہلے بھی اکثر مسلم دانشوروں اور علماء کو اعتماد میں لیا گیا، بلکہ یوں کہا جائے کہ ان کی تالیف قلب کی گئی ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ بابری مسجد کے غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف کسی نے زبان کھولنے کی جرأت نہیں کی اور سب نے اس کو بسروچشم قبول کرلیا۔جس وقت مسلم دانشور یہ راگ الاپ رہے تھے کہ ہندومسلم اتحاد کے لئے مسلمانوں کو مسجد سے دستبردار ہو جانا چاہیے، اس وقت بعض دوراندیش افراد نے اس رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہرگز بابری مسجد کا مطالبہ آخری ثابت نہیں ہوگا۔اگر ہم مسجد سے دستبردار ہو جاتے ہیں تو وہ دوسرے مطالبے کے ساتھ سامنے آجائیں گے۔ بالآخر یہی ہوا۔بابری مسجد کے فیصلے کے بعد فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور پھر کبھی نہ ختم ہونے والا مطالبات کا سلسلہ شروع ہوا جو تاج محل، جامع مسجد دہلی، ٹیلے والی مسجد لکھنؤ اور اب اجمیر کی درگاہ تک جا پہنچا ہے۔ ان مطالبات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا جب تک ’ پلیس آف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ء‘کانفاذ نہیں کیاجائے گا،جس کو غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ ایک سیکولر ملک میں عدلیہ کی بالادستی اور منصفوں کا غیر جانب دار ہونا ضروری ہے ۔مگر افسوس یہی روایت ہندوستان سے ختم ہونے لگی ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔