حوزہ نیوز ایجنسی | سراج العلماء مولانا سید غلام مرتضیٰ سن 1924عیسوی میں سرزمین لکھنؤ پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اکبر علی تجارت پیشہ انسان تھے جو آری دردوزی کا کاروبار کیا کرتے تھے۔
سراج العلماء نے ابتدائی تعلیم سعادت گنج کے پرائمری اسکول میں حاصل کی اس کے بعد سلطان المدارس میں درجہ سوم میں داخلہ لیا۔ آپ وہاں کے مہربان اور تجربہ کار اساتذہ کی خدمت میں رہ کراپنے مدارج علمی کو طے کرتے رہے اورسلطان المدارس کی آخری سند" صدرالافاضل" اچھے نمبروں سے حاصل کی۔ موصوف نے اپنے اساتذہ سے بھرپور استفادہ کرکے فقہ، اصول، ادب ، تاریخ ، شعروسخن میں مہارت حاصل کرلی ۔ آپ نے عربی فارسی بورڈ کےمنشی، مولوی ، عالم اور فاضل کے امتحانات دیے اور امتیازی نمبروں سے اسناد حاصل کیں۔
آپ نے جدید عربی ادب علامہ مجتبیٰ حسن کامونپوری سے پڑھا ۔ علامہ کامونپوری" جامعہ ازہر مصر "سے تعلیم حاصل کرکے واپس تشریف لائے تھے سراج العلماء غلام مرتضیٰ نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ علامہ کامونپوری کے ساتھ گذار اسی بناپر آپ کو جدید عربی نثرو نظم میں کمال حاصل ہوا علامہ کامونپوری نے آپ کو عربی مضامین لکھنے کی بھی مشق کرائی اور عربی شعر گوئی کی طرف بھی متوجہ کیا چنانچہ مولانا ہادی کی وفات پر آپ نے عربی میں یاد گار مرثیہ کہا جسے علمی حلقوں میں بہت سراہا گیا اور سراج العلماء کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا۔
آپ کے اساتذہ میں ہادی الملت مولانا سید محمد ہادی ، آیت اللہ سید علی رضوی، آیت اللہ سیدمحسن نواب، نادرۃ الزمن مولانا ابن حسن نونہروی اور علامہ مجتبیٰ حسن کامونپوری وغیرہ کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں۔
مولانا غلام مرتضیٰ کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد آپ کی علمی وادبی صلاحیت، اورتدریسی فن کو دیکھتے ہوئے مادرعلمی سلطان المدارس میں میں مُدرِّس کی حیثیت سے منتخب کر لیا گیا اور موصوف تشنگان علوم کو سیراب کرنے میں مشغول ہوگئے۔ آپ کو عربی ادب اور تاریخ سے بہت لگاؤ تھا۔ دیوان رضی، دیوان ابوتمام، دیوان متنبی، حماسہ اور نہج البلاغہ کی تدریس میں خاص ملکہ تھا ان کتابوں کے سخت ترین متون کو اس طرح حل فرمادیتے تھے کہ طلباء کو عبارت کی پیچیدگی کا احساس ہی نہیں ہوپاتاتھا۔
کتابوں کی تدریس میں حد درجہ مہارت تھی بغیر مطالعہ کے فوراً پڑھا دیا کرتے تھے۔ ہزاروں عربی اشعار حفظ تھے جو اکثر گفتگو یا دیوان متنبی پڑھاتے وقت سنایا کرتے تھے ۔آپ شاگردوں سے پدرانہ شفقت فرماتے کبھی ان پر غصہ نہیں کرتے اگران سے غلطی ہوجاتی تو بڑے ہی شفیقانہ انداز میں سمجھا دیا کرتے تھے۔
موصوف کو درس و تدریس کا اتنا شوق تھا کہ بیک وقت کئی مدرسوں میں درس دیتے تھےآپ ضعیفی کے باوجود سلطان المدارس میں پڑھانے کے بعد حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ مصاحب گنج میں درس دینے کے لئے تشریف لے جاتے۔ آپ کو جامعۃ التبلیغ پہنچنے میں کافی تاخیر ہوجاتی تھی کبھی تو چھٹی ہوجاتی اور دیگر اساتذہ بھی اپنے اپنے گھر چلے جاتے تھے مگر شاگرد بھی سراج لعلماء سے بہت زیادہ مانوس تھےاور زیادہ سے زیادہ موصوف سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ شیعہ عربی کالج میں بھی عمادالکلام اور عماد الادب کے درجات کو درس دیتے جن میں بڑی تعداد میں طلباء آپ سے استفادہ کرتے تھے۔
آپ نے سینکڑوں شاگردوں کی تربیت کی جن میں مولانا طیب رضا، مولانا مرزا جعفر عباس، مولانا محمد اطہر کاظمی، مولانا مرزا رضا عباس، مولانا سید عالم مہدی، مولانا عمران حیدر زیدی، مولانا محمد ابراہیم، مولانا قمرخان، مولانا سید رضی حیدر زیدی، مولانا علی گوہرزیدی اورمولانا منتظر مہدی رضوی، وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
سراج العلماء مولانا غلام مرتضیٰ کو تصنیف و تالیف سے بھی لگاؤ تھا یہی وجہ ہیکہ آپ نے کردار رسالت، علوی نظام حکومت، کردار دعبل خزاعی اور تبلیغی مجالس دو حصوں پر مشتمل کتابیں تحریر فرمائیں۔ موصوف نے "تبلیغی مجالس" نامی کتاب میں علمی نکات قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائے ہیں۔ یہ کتاب ذاکرین کے لئے مفید ثابت ہوئی اور اسے خطابت کے میدان میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے علاوہ آپ کے مضامین مجلہ" الواعظ "اور سرفراز اخبار میں شائع ہوتے رہتے تھے۔
آپ عمدہ مدرس اور محقق کے ساتھ ساتھ بہترین عربی فارسی کےشاعر بھی تھےاور یہ ہی نہیں بلکہ آپ کی ذاکری بھی مقفع اور مسجع ہوتی تھی مؤمنین بہت پسند فرماتے تھے۔ آپ نے ذاکری کا آغاز تحت اللفظ مرثیہ پڑھنے سے کیا اور اس کے بعد پھر مسودے تیار کئے اور باقاعدہ ذاکری شروع کردی۔ طالب علمی کے زمانے میں پہلا عشرہ الہ آباد میں پڑھا جو بہت کامیاب رہا ہمت بندھی اور ذاکری کا ارتقائی سفر شروع کیا۔آپ کی خطابت میں قدماء کا عکس جھلکتا تھا۔
ہندوستان کے مختلف شہروں جیسے ممبئی، الہ آباد، بنارس، فیض آباد، لکھنؤ ، مرادآباد اور امروہہ جیسی بستی جو علمی فضا کا مرکز سمجھی جاتی رہی ہے میں خطابت کے جوہر دکھائے اور بیرون ملک میں بھی عشرہ ہائے مجالس کو خطاب کیا۔
سراج العلماء تدریس، تحقیق و تالیف، ذاکری اور لکھنے پڑھنے کو بہت پسند فرماتے تھے ویسے ہی ورزش کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے اور خود ہمیشہ وزش کرتے رہے اور بڑھاپے تک کبھی ورزش نہیں چھوڑی۔
اللہ نے آپ کو ایک بیٹی اور ایک بیٹا عطا کیا جسکو سید محسن مرتضیٰ کے نام سے پہچانا جاتا ہے
آخر کار دنیائے علم وادب کی معروف ومشہور شخصیت، استاذالاساتذہ، آداب مجلس کے ماہر، مہذب، متمدن اور شائستہ طبعیت میں نفاست و پاکیزگی، لہجہ میں وقار، باتوں میں گل افشانی، زبان و بیان پر قدرت، خوش مزاج، خوش اخلاق، خوش بیان، خوش رو، خوش پوشاک اور ہر دلعزیز سراج العلماء مولانا غلام مرتضیٰ لکھنؤی 11/ فروری 2010 عیسوی کی شب میں طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ غسل و کفن کے بعد چاہنے والوں کی موجودگی میں کربلا امداد حسین لکھنؤ میں سپرد خاک کردیےگئے۔
کتاب: نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔
ویڈیو دیکھیں:
آپ کا تبصرہ