حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید مصطفیٰ موسوی صفوی 2/ فروری 1924 عیسوی میں بڈگام صوبہ کشمیر کے علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آغا سید احمداپنے وقت کے زاہد اورعالم ربانی تھے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد آغاسید احمد ، دادا آغا سید محمد ، آغاسید یوسف اور حاجی امان ہونزوی سے حاصل کی۔موصوف اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے عازم نجف اشرف ہوئے اور وہاں جید علمائے کرام سے کسب فیض کیا۔ آپ کے برجستہ اساتذہ میں حجت الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن مشہدی، آیت اللہ الحاج محسن الحکیم طباطبائی، آیت اللہ آغا بزرگ تہرانی، آیت اللہ ہادی میلانی، آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ عبداللہ شاہرودی،آیت اللہ محمد ہادی میلانی وغیرہ کے اسماء سرفہرست ہیں۔
آغا سید مصطفیٰ موسوی کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے نجف اشرف میں آیت اللہ شہاب الدین حسینی مرعشی، آیت اللہ العظمیٰ روح اللہ موسوی خمینی، آیت اللہ محمد فاضل ، آیت اللہ محمود حسینی شاہرودی ، آیت اللہ محمد محسن معروف بہ آقابزرگ تہرانی ، آیت اللہ محمد ہادی حسینی میلانی، آیت اللہ محسن الحکیم طباطبائی، آیت اللہ محمد بن مہدی حسینی موسوی ، آیت اللہ عبدالمقال حسینی شیرازی نے نقل روایت ، امور حسبیہ، اخذوجوہات شرعیہ اور امام جمعہ والجماعت جیسے اجازات سے نواز۔
آپ نجف اشرف میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آگئے اور اپنے چچا علامہ سید یوسف موسوی کے ساتھ درس و تدریس اور تبلیغ دین میں مصروف ہوگئے۔ جامعہ باب العلم میں تدریس کے ساتھ انجمن شرعی شیعیان کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اور مجلہ الارشاد کی مدیریت بھی آپ کے ذمہ کر دی گئی موصوف تمام تر مصروفیات کے باوجود مجلہ الارشاد کے لئے مضامین لکھتے رہے اور اپنے وظیفہ کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ۔
علامہ سید مصطفیٰ موسوی نے اپنی پوری زندگی مؤمنین کشمیر کے لئے وقف کردی تھی، کشمیر کے مختلف مقامات پر نماز جمعہ و جماعت قائم کرائی اور خود امامباڑہ حسن آباد میں امام جمعہ کے فرائض انجام دیتے رہے۔موصوف اہلبیت علیہم السلام اور ان کی یاد سے ہمیشہ وابستہ رہتے تھے۔ سال بھر محافل و مجالس کا سلسلہ رکھتے اور منتظمین کی سرپرستی فرماتے۔ ایام عز اکے جلوس ہائے عزا میں ساتھ ساتھ رہ کر رہبری کرتے ۔ کبھی جلوس سے الگ نہیں ہوتے تھے۔موصوف شرعی عدالت میں تمام مقدمات کی خود سنوائی فرماتے اور حقدار کو اس کا حق دلا دیتے۔آپ نے لوگوں کےتقریبا آٹھ ہزارمقدمات کو حل کیا جس سے معاشرے کو انصاف ملا۔
اللہ نے آپ کو اولاد جیسی نعمت سے بھی نوازا جوآغا سید حسن موسوی صفوی، آغا سید محمد حسین مصطفیٰ موسوی ، آغاسید علی موسوی، آغاسید محسن موسوی آغا سید عبد الحسین ، آقا سید احمد اور آغا سید مہدی موسوی کے نام سے پہچانے گئے۔ ۔
مولانا سید مصطفیٰ نہایت متقی، قناعت پسند اور دنیا سے دور رہنے والے انسان تھے۔ موصوف کو مصائب و آلام نے گھیرلیا مگر آپ نے کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا۔ آپ کی زندگی میں بڑے فرزند مولانا سید محمد حسین داغ مفارقت دے گئے۔ اس کے بعد دوسرے فرزند سید مہدی مجلس پڑھنے جا رہے تھے راستے میں حادثے کی وجہ سے داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں۔ مگر آپ نے مصیبت پر صبر اور دوسروں کو بھی مصائب سید الشہداء کے ذکر سے تسلی دیتے رہے۔
آخری عمر میں طبعیت ناساز ہوگئی بہت سے امراض نے گھیرلیا کشمیر سے لے کر دہلی تک علاج کرایا گیا مگر اللہ سے ملاقات کا وقت آگیا تھا۔ 12/ جمادی الثانی 1423ہجری مطابق 21/اگست 2002عیسوی کو اس دارفانی سے داربقا کی طرف کوچ کرگئے۔ آپ کے انتقال کی خبر ریڈیو اور ٹیلی ویزن سے سنائی گئی ہزاروں کی تعداد میں چاہنے والوں کا مجمع آپ کے شریعت کدہ پر جمع ہوگیا دوسرے روز تشیع جنازہ کی گئی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ تمام دفاتر، مدارس، اسکول اور بازار بند رہے۔ نماز جنازہ مولانا آغاسیدحسن موسوی نے پڑھائی اور ان کے آبائی مقبرہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص156، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔
ویڈیو دیکھیں: