۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
مولانا علی حیدر فرشتہ

حوزہ/ مجمع علماء وخطباء حیدرآباد دکن کے بانی و سرپرست اعلیٰ نے بھارتی سپریم کورٹ کے مندر اور مسجد تنازعات پر نئے مقدمات دائر کرنے سے روکنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام انصاف کی بحالی اور فرقہ واریت کے خاتمے کی طرف اہم قدم ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ہندوستانی عوام کے عدلیہ پر اعتماد کی بحالی کی امید پیدا ہوئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حیدرآباد دکن/ مجمع علماء وخطباء حیدرآباد دکن کے بانی و سرپرست اعلیٰ مولانا علی حیدر فرشتہ نے بھارتی سپریم کورٹ کے مندر اور مسجد تنازعات پر نئے مقدمات دائر کرنے سے روکنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام انصاف کی بحالی اور فرقہ واریت کے خاتمے کی طرف اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ہندوستانی عوام کے عدلیہ پر اعتماد کی بحالی کی امید پیدا ہوئی ہے۔

مولانا نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان عبادت گاہوں سے متعلق ہے جن کے بارے میں تنازعات جاری ہیں، جیسے گیان واپی مسجد وارانسی اور شاہی عیدگاہ کرشن جنم بھومی متھرا۔ عدالت نے یہ واضح کیا ہے کہ ایسے مقدمات میں نہ تو سروے کے احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی عارضی یا حتمی فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔

مولانا فرشتہ نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی پلیسیس آف ورشپ ایکٹ پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ فرقہ وارانہ مسائل کے حل کے لیے غیرجانبدار رہتے ہوئے کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار، اور جسٹس کے وی وشوناتھن کے اس بینچ نے 1991 کے عبادت گاہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ دیا ہے جو ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے معاون ثابت ہوگا۔

مولانا نے اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ چند برسوں میں نچلی اور اعلیٰ عدالتوں کے بعض فیصلے فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کا باعث بنے۔ ایسے فیصلے نہ صرف عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان تمام افراد کے لیے واضح پیغام ہے جو عبادت گاہوں کی آڑ میں تنازعات کو ہوا دے کر فرقہ واریت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

عدالت نے مرکزی حکومت کو چار ہفتے میں اس معاملے پر اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دیا ہے، جبکہ دیگر فریقین کو بھی حکومت کے حلف نامے پر چار ہفتے میں جواب داخل کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔

آخر میں مولانا علی حیدر فرشتہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس فیصلے کو ایک تاریخی اقدام قرار دیا جو ملک میں امن اور انصاف کے قیام کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس فیصلے کو مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے فرقہ وارانہ ہمآہنگی کو فروغ دیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .