حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ نے ہفتہ کو تاریخی فیصلہ سنا دیا. پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے متنازعہ زمین پر رام للا کے حق میں فیصلہ سنایا. عدالت عظمی نے مرکز اور اتر پردیش حکومت کو رام مندر بنانے کے لئے تین ماہ میں ایک ٹرسٹ بنانے کی ہدایات دی ہیں. عدالت نے کہا کہ 02.77 ایکڑ مرکزی حکومت کے تابع ہی رہے گی۔
ساتھ ہی مسلم پارٹی کو نئی مسجد بنانے کے لئے الگ سے پانچ ایکڑ زمین دینے کے بھی ہدایات ہیں. اس کے علاوہ عدالت نے نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کے دعووں کو مسترد کر دیا ہے. اگرچہ نرموہی اکھاڑے کو ٹرسٹ میں جگہ دینے کی اجازت کو قبول کر لیا گیا ہے۔
ہندو مہاسبھا کے وکیل نے کہا
ہندو مہاسبھا کے وکیل ورون کمار سنہا نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس کے ذریعے اتحاد کا پیغام دیا ہے۔
مسلم فریق نے کہا، فیصلے کا احترام کریں گے
سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ہم فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں. ہم آگے کی کارروائی پر جلد ہی فیصلہ کریں گے۔
ثالثی کرنے والوں کی تعریف
سپریم کورٹ نے تنازعہ میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے جسٹس کلی فللہ ، رام پاچو اور شری شري روی شنکر کی تعریف کی۔
عدالت نے کہا کہ 02.77 ایکڑ مرکزی حکومت کے تابع ہی رہے گی. ساتھ ہی نرموہی اکھاڑے کو مندر کے لئے بنائے جانے والے ٹرسٹ میں جگہ دی جائے، اگرچہ یہ مرکزی حکومت پر انحصار کرے گا۔
مسجد گرانا قانون کی خلاف ورزی: سپریم کورٹ
بابری مسجد انہدام پر سپریم کورٹ نے کہا کہ مسجد کو گرانا قانون کی خلاف ورزی ہے.
عدالت نے حکومت کو ہدایات دی ہیں کہ تین ماہ کے اندر مندر بنانے کے لئے ٹرسٹ بنایا جائے اور مسلم پارٹی کو علیحدہ پانچ ایکڑ زمین دی جائے. اس زمین پر نئی مسجد بنائی جائے گی۔
سنی وقف بورڈ اپنا دعوی رکھنے میں ناکام ہوئی : ہائی کورٹ
عدالت نے کہا کہ سنی وقف بورڈ ایودھیا تنازعہ میں اپنا دعوی رکھنے میں ناکام ہوا ہے. مسلم طرف ایسے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ متنازعہ زمین پر صرف اس کا ہی حق ہے۔
کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ سنی وقف بورڈ کو مختلف زمین دی جائے. سپریم کورٹ نے ہدایات دی ہیں کہ مسلمانوں کو نئی مسجد بنانے کے لئے اختیاری زمین دی جائے۔
مسلم اندر نماز پڑھتے تھے اور ہندو بیرونی احاطے میں عبادت کرتے تھے
یہ صاف ہے کہ مسلم اندر نماز پڑھا کرتے تھے اور ہندو بیرونی احاطے میں عبادت کیا کرتے تھے.
اگرچہ ہندوؤں نے کمرہ پر بھی اپنا دعوی کر دیا. جبکہ مسلمانوں نے مسجد کو چھوڑا نہیں تھا۔
کورٹ نے کہا رام جنم بھومی کوئی شخص نہیں
عدالت نے یہ بھی کہا کہ رام جنم بھومی کوئی شخص نہیں ہے جو قانون کے دائرے میں آتا ہو.
عدالت نے کہا کہ ایمان کی بنیاد پر فیصلے نہیں لئے جا سکتے ہیں. یہ تنازعہ حل کرنے کے لئے اشارے ضرور ہو سکتے ہیں. سپریم کورٹ نے کہا کہ انگریزوں کے دور حکومت میں رام چبوترہ اور سیتا باورچی خانے میں عبادت ہوا کرتی تھی. اس بات کے ثبوت ہیں کہ ہندوؤں کے پاس متنازعہ زمین کے بیرونی حصے کا قبضہ تھا۔
خالی زمین پر نہیں تھی مسجد: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا کہ بابری مسجد خالی زمین پر نہیں بنی تھی. اے ایس آئی کے مطابق مندر کے ڈھانچے کے اوپر ہی مندر تعمیر کیا گیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ ہندو اسے بھگوان رام کی جائے پیدائش مانتے ہیں. ان کی اپنی مذہبی و ہیں. مسلم اسے مسجد کہتے ہیں. ہندوؤں کا خیال ہے کہ بھگوان رام مرکزی گنبد کے نیچے پیدا ہوئے تھے. یہ ذاتی ایمان کی بات ہے۔
چیف جسٹس بولے توازن بنانا ہوگا
چیف جسٹس نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ عدالت کو لوگوں کے عقیدے کو قبول کرنا ہوگا. عدالت کو توازن بنانا ہوگا.
نرموہی اکھاڑے کے دعوے پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمی نے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر انحصار کیا. کورٹ نے کہا کہ اس پر شک نہیں کیا جا سکتا. ساتھ ہی محکمہ آثار قدیمہ کی تلاش کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
شیعہ وقف بورڈ کا دعوی مسترد
چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم شیعہ وقف بورڈ کی خصوصی درخواست کو مسترد کرتے ہیں. شیعہ وقف بورڈ نے 1946 میں فیض آباد کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا.
عدالت نے کہا کہ بابری مسجد میر بکی نے بنوائی تھی. عدالت کے لئے الہیات کے خانے میں جانا صحیح نہیں ہوگا.
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آمدنی ریکارڈ میں متنازعہ زمین سرکاری زمین کے نام پر درج ہے۔