۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
پاکستان میں عدالت

حوزہ/ آئین کے مطابق ریاست دس سال میں ہر طرح کے استحصال کے خاتمے کی پابند تھی، سود بھی استحصال کی ہی ایک قسم ہے، صرف 1980 سے 1990 تک عدالتی دائرہ اختیار نہیں تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ملک پاکستان کے عدالتی معاون انور منصور نے کہا ہے کہ شریعت کورٹ قوانین کو غیراسلامی قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے۔ چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں وفاقی شرعی عدالت کے تین رکنی بینچ نے سود کے خاتمے کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

عدالتی معاون انور منصور نے کہا کہ آئین کے مطابق ریاست دس سال میں ہر طرح کے استحصال کے خاتمے کی پابند تھی، سود بھی استحصال کی ہی ایک قسم ہے، صرف 1980 سے 1990 تک عدالتی دائرہ اختیار نہیں تھا، لیکن 1990 سے شریعت کورٹ قوانین کو غیراسلامی قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

عدالتی معاون نے کہا کہ ربا کا خاتمہ ضروری ہوگیا ہے، سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی ہے کہ تمام قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے، قرآن و سنت کے متصادم کوئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔

عدالتی معاون انور منصور خان نے دلائل دیے کہ پیسے کو خریدا جا سکتا ہے نہ ہی یہ فروخت ہو سکتا، ایک ہزار روپیہ دیکر دو ہزار مانگنا ربا کے زمرے میں آتا ہے، اشیاء فروخت ہوسکتی ہیں مگر پیسہ نہیں۔

سراج الحق روسٹم پر آ گئے اور کہا کہ عدالت سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، کے پی میں فنانس منسٹر تھا تو صوبے میں اسلامی بنکاری شروع کی، کے پی کو تین سال میں سود اور قرض سے پاک صوبہ بنایا تھا ، پوری قوم اس عدالت کی طرف دیکھ رہی ہے، قائداعظم کے نعرے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ پر قوم نے لبیک کہا، مشیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ سودی نظام سے غریب اور امیر میں فرق بڑھ گیا ہے۔ سراج الحق نے بتایا کہ گزشتہ بجٹ میں 33 ہزار ارب ملک نے سود میں ادا کیا، وزیر خزانہ نے بتایا کہ سود ادا کرنے کیلئے مزید قرض لینا ہوگا، سودی نظام کی وجہ سے معیشت ترقی نہیں کر رہی، 1957 میں 37 کروڑ ڈالر قرض ملا اسکی وجہ سے آج تک مقروض ہیں، قرض ہمیں چرس کے نشے کی طرح ایسا لگا کہ آج 47 ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے، شریعت کورٹ نے ماضی میں سود کیخلاف فیصلہ دیا تھا۔

سراج الحق نے کہا کہ جاپان سود سے پاک معیشت کی جانب بڑھ رہا ہے، دوست ملک سے ملنے والی خیرات پر بھی آج سود ادا کرنا پڑے گا، جو دلائل ہم پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی دور میں سنتے تھے آج بھی وہی سنے ہیں، کیا لازمی ہے جب تک لاکھوں لوگ سڑک پر طویل دھرنے نہ دیں تب تک حکمران بات نہیں سنیں گے؟ اللہ کے احکامات میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے اس پر عمل کرنا ہوگا۔ عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ انور منصور جمعہ تک اپنے دلائل مکمل کرینگے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .