۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
کاشی،متھرا عید گاہ و مسجد معاملہ

حوزہ/گیان واپی مسجد و کاشی متھرا عید گاہ اور مسجد معاملہ،جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں مداخلت کار کی درخواست داخل کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ کا فیصلہ آنے کے سات مہینے کے بعد گذشتہ جمعہ کو ہندو تنظیم نے گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ و مسجد تنازعہ حل کرانے کے لیئے سپریم کورٹ آف انڈیا کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہیت مہا سنگھ نے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کے پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

یہ قانونی 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے حالانکہ بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں چل رہا تھا۔

پجاریوں کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن کا علم ہوتے ہی صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت جمعیۃ علماء ہند نے اس پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیئے مداخلت کار کی درخواست داخل کردیا جس میں جمعیۃ علماء ہند، قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کو مدعی بنایا گیا ہے۔ اس ضمن میں گلزار اعظمی نے بتایا کہ انہیں جیسے ہی پتہ چلا کہ سادھوؤ ں کی تنظیم کی جانب سے پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرتے ہوئے گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عیدگاہ اور مسجد تنازعہ دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے انہوں نے جمعیۃ علماء کے قانونی صلاح کار ایڈوکیٹ شاہد ندیم کو ہدایت دی کہ ہمیں سادھوؤں کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل اس عرضداشت کی مخالفت کرنا چاہئے لہذا وہ سپریم کورٹ میں جلد از جلد مداخلت کار کی پٹیشن داخل کرنے کے لیئے لائحہ عمل تیار کریں۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے آن لائن کانفرنس کرکے انہیں جمعیۃ علماء کی جانب سے سپریم کورٹ میں جلد از جلد مداخلت کار کی درخواست داخل کرنے کی گذارش کی جس کے بعد گذشتہ شب ہی سپریم کورٹ آف انڈیا میں مداخلت کار کی درخواست داخل کردی گئی جس کا نمبر ڈائری نمبر 12395/2020ہے۔

ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہیکہ سب سے پہلے تو عدالت ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لیئے قبول ہی نہ کرے اور اسے خارج کردے کیونکہ اگر عدالت اسے سماعت کے لیئے قبول کرلیتی ہے تو ہندوستان کے انصاف و امن پسند عوام بالخصوص مسلمانوں میں خوف پیدا ہوجائے گا کیونکہ بابری مسجد فیصلہ آنے کے بعد سے ہی مسلمان ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو لیکر فکر مند ہیں نیز ملک کی قومی یکجہتی کو اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔

عرضداشت میں مزید لکھا گیا ہیکہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4 کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانونی کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پٹیشن میں مزید درج کیا گیا ہیکہ پلیس آف ورشپ قانونی 1991 نافذکرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھااور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہیکہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔

عرضداشت میں مزید تحریر کیاگیا ہیکہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے نیز یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہوئی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری لیگی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہیکہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے اس کے باوجود سادھوؤں کی تنظیم نے اس قانون کو چیلنج کیا ہے لہذاعدالت کو ان کی پٹیشن کو سرے سے ہی خارج کردینا چاہئے۔ اگر ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل کردہ عرضداشت کو عدالت نے سماعت کے لیئے قبول کرلیا تو مقدمہ دائر کرنے کا ایک سیلاب آجائے گاجس کی وجہ ملک میں مزید بد امنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

گلزاراحمداعظمی نے مزید کہا کہ ملک میں سیکڑوں مساجد ایسی ہیں جس پر ہندوؤں کا دعوی ہیکہ وہ پہلے مندر تھا جسے مغل حکمرانوں نے توڑ کر مساجد اور عید گاہوں میں تبدیل کردیا لہذا پلیس آف ورشپ قانونی کی بالا دستی قائم رکھنے کے لیئے جمعیۃ علماء پوری قوت سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں مقدمہ لڑے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .