حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی:بابری مسجد کا متنازعہ فیصلہ دینے والے بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو بی جے پی حکومت نے راجیہ سبھا کا رکن نامزد کرکے انعام سے نواز دیا۔بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے گزشتہ سال نومبر میں بابری مسجد کی ملکیت انتہا پسند ہندوئوں کو دینے کا حکم سنایا تھا۔راجیہ سبھا کے رکن ٹی جی تلسی کی ریٹائرمنٹ کے نتیجے میں خالی نشست پر انہیں رکن نامزد کیا گیا۔سائوتھ ایشین وائر کے مطابق گوگوئی نے پانچ ججوں کے اس بنچ کے سربراہ تھے جس نے گزشتہ سال 9 نومبر کو بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ایودھیا اراضی تنازعہ کا فیصلہ سنایا تھا ۔
سینئر وکلا سنجے ہیگڑے، پرشانت بھوشن، گوتم بھاٹیانے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کو راجیہ سبھا رکن بنائے جانے پر شدید تنقید کی ہے۔خبروں کی ایک ویب سائٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب یہ صرف ان کے ذاتی جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اپنے ساتھ بیٹھنے والے سبھی ججوں کی آزادی اور غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
سائوتھ ایشین وائر کے مطابق سینئر وکیل گوتم بھاٹیا نے اس قدم کو آزاد عدلیہ کی موت قرار دیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ چیزوں کے واضح ہونے میں کچھ وقت ضرور لگا اور وہ کھل کر سامنے آ گیا، لیکن آزاد عدلیہ کی موت ہو گئی۔ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین(اے آئی ایم آئی ایم) سربراہ اسد الدین اویسی نے اپنے ٹوئٹ میں سوال کر دیا ہے کہ کیا یہ معاوضہ ہے؟ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ کوئی شخص آخر کس طرح ججوں کی آزادی کا بھروسہ کر سکتا ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق مشہور و معروف وکیل اور سماجی کارکن پرشانت بھوشن نے بھی سابق چیف جسٹس کو راجیہ سبھا رکن بنائے جانے کے بعد اپنا سخت رد عمل سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ظاہر کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سربراہ دشینت دوے نے سابق چیف جسٹس کو راجیہ سبھا رکن بنائے جانے کو سیاسی معاملہ قرار دیا ہے۔