حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جمعیۃعلماء ہند نے مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر آج شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپنی رٹ پٹیشن داخل کردی جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کے بنیادی اقدارکے منافی ہے اوراس سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے اسلئے اس ایکٹ کو کالعدم قراردیاجائے،، پٹیشن میں یہ اہم نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کی دفعہ 14اور 21کے منافی ہے، اس ایکٹ میں غیر قانونی مہاجرکی تعریف میں مذہب کو بنیادبناکر تفریق کی گئی ہے اور اس کا اطلاق صرف مسلمانوں پر کیا گیا ہے جبکہ ہندوسکھ، بدھشٹ، جین، پارسی کو غیر قانونی مہاجر کے دائرہ سے باہر کردیا گیا ہے جو کہ دستورکی دفعہ 14سے متصادم ہے اس کے علاوہ دستورہند کا بنیادی ڈھانچہ سیکولرازم پرمبنی ہے اس ایکٹ میں اصل بنیادکو نقصان پہنچایا گیا ہے، پٹیشن میں اس ایکٹ کے نتیجہ میں آسام میں این آرسی کی فہرست سے باہر ہونے والے ہندوکوشہریت ایکٹ کی دفعہ (6B)کے تحت شہریت کا حق مل جائے گا، جبکہ صرف مسلمانوں کو یہ حق نہیں ملے گا، جو کہ عصبیت اور امیتازپرمبنی ہے، قومی سطح پر ایسی تفریق سے قومی اتحادکا متاثرہونایقینی ہے، ان تمام دلائل کے ساتھ آج جمعیۃعلماء ہندکی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ارشادحنیف نے ڈاکٹر راجیودھون سے مشورہ کے بعد رٹ پٹیشن داخل کی ہے۔جس کا ڈائری نمبر 45566/2019ہے۔
واضح رہے کہ اس اہم کیس کی پیروی مشہور ومعروف سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون کریں گے ، پٹیشن داخل ہونے کے بعد اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا شروع سے یہ مانناہے کہ جن ایشوز یا مسائل کا حل سیاسی طورپر نہ نکل سکے اس کے خلاف قانونی جدوجہد کا راستہ اپنایاجائے، بہت سے اہم معاملوں میں جمعیۃعلماء ہند نے ایسا کیا ہے اور متعدداہم معاملوں میں عدلیہ سے انصاف ملا ہے، چنانچہ اسی یقین اور امید کے ساتھ یہ پٹیشن داخل کی گئی ہے کہ عدالت معاملہ کی سنگینی اور پٹیشن میں اٹھائے گئے تمام نکتوں کا باریکی سے جائزہ لیکر اپنا فیصلہ دے گی۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ بے تکی دلیل دی جارہی ہے کہ یہ قانون لوگوں کو شہریت دینے کا ہے شہریت لینے کا نہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے اس قانون کے مضمرات آئندہ چل کر اس ملک کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ جب ملک بھرمیں این آرسی نافذ ہوگی تو اس قانون کے مضمرات اپنی بھیانک شکل میں سامنے آئیں گے، اور تب جولوگ کسی وجہ اپنی شہریت ثابت نہیں کرسکیں گے ان کے لئے یہ قانون تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں تحریک شروع ہوگئی ہے اور لوگ مذہب سے بلند ہوکر اس کی مخالفت کررہے ہیں یہاں تک کے آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں حکومت کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود عوام سڑکوں پر اترکر اس قانون کے خلاف اپنے غم وغصے کا اظہارکررہے ہیں، ملک بھرکی یونیورسیٹیوں اور تعلیمی اداروں کے طلباء بھی متحدہوکر اس کے خلاف آواز بلندکررہے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ایک مثبت علامت ہے لیکن قانونی جدوجہد بھی ضروری ہے اور اسی کے مدنظر جمعیۃعلماء ہند نے آج اپنی پٹیشن داخل کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے اس کیس کی پیروی بھی ڈاکٹرراجیودھون کریں گے جو نہ صرف ملک کے ممتاز قانون داں ہیں بلکہ آئین کے ماہر بھی ہیں۔