نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دہلی یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس ڈپارٹمنٹ کی دعوت پر معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے فقہ اسلامی کے مسالک خمسہ پر سوشل سائنسز فیکلٹی کے لکچر ہال میں انگریزی زبان میں ایک مسبوط لکچر دیا جس میں دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کے طلبہ واساتذہ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے سامی مذاہب، اسلام کی آمد اور حدیث و فقہ کی تدوین پر مسبوط لکچر دیتے ہوئے سنی مسالک فقہ یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور شیعہ مسلک جعفری کی ابتداء اور تدوین کے اہم مراحل ونقاط کو اجاگر کیا اور کہا کہ ان سارے مذاہب میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے کیونکہ ان سب کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے، البتہ سیاسی فکر میں اختلاف ہے کیونکہ حاکم کا انتخاب سنی جمہوری طور سے کرتے ہیں [جبکہ شیعہ الٰہی موازین پر قرآن و حدیث کی رو سے] پیغمبر اسلام(ص) کے بعد حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد کو جائز امام مانتے ہیں۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے ہندوستانی مدارس دینیہ اور مصر کے جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی سے ہجرت کے مفہوم کے بارے میں ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصنیفات و تراجم عربی، انگریزی اور اردو میں شائع ہو چکی ہیںِ نیز انھوں نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں مسلمانان ہند اور ہندوستانی اسلامی ثقافت کے بارے میں آٹھ مقالات تحریر کیے ہیں۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے اپنے مبسوط لکچر میں بتایا کہ اسلامی فقہ اور تھیالوجی کا تصور عیسائی یا ہندو تھیالوجی سے بالکل مختلف ہے کیونکہ دوسرے مذاہب کے برعکس اسلامی فقہ زندگی ، سوسائٹی اور حکومت کے تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے، یہاں تک کہ بین الاقوامی معاملات کے بارے میں بھی اسلامی فقہ میں مبسوط تعلیمات موجود ہیں اور یہ فقہ دنیا کے مختلف حصوں میں تقریباً تیرہ سو سال تک حکومتی سطح پر رائج رہی ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں مغربی سامراج کے اکثر مسلم ممالک پر قابض ہونے کے بعدمسلمانوں کی زندگی میں فقہ کا دائرہ سکڑنا شروع ہوا اور اب مسلم ممالک میں بھی فقہ صرف عائلی قوانین تک محدود ہے جبکہ دوسرے قوانین یعنی سیاسی، تجارتی ومعاشی قوانین مغربی اور بالخصوص سوئزرلینڈ و فرانس کے قوانین سےنقل کیےگئے ہیں۔ ہندوستان میں بھی، جہاں اکثر [سنی] مسلمان فقہ حنفی کو مانتے ہیں، فقہ کو انگریزوں کے زمانے سے عائلی قوانین تک محدود کردیا گیا اور ۱۹۳۷ میں انگریزوں نے شریعت ایکٹ لاکر اس کو قانونی شکل دی جو اب بھی جاری ہے، حالانکہ موجودہ حکومت اس کوشش میں ہے کہ مسلم عائلی قوانین کو بھی ختم کردیا جائے اور مسلمانوں پر ایک کامن سول کوڈ لاد دیا جائے۔ طلاق ثلاثہ قانون اس کی ابتداء ہے۔ اس کے تحت ایک ساتھ تین طلاق دینے والے شوہر کو دو سال کے لیے جیل بھیج کر اس کے بیوی بچوں کو سڑک پر چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ اس بات کا بھی تعین قانونی طور پر نہیں ہوتا ہےکہ بیوی کو طلاق ہوگئی یا نہیں۔ یہ اس لیے ہوا ہےکیونکہ موجودہ حکومت نے مسلم علماء اور معتبر تنظیموں سے اس سلسلے میں مشورہ کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔
ڈیڑھ گھنٹے کے اس لکچر کے بعد مزید ڈیڑھ گھنٹے سوال و جواب کا سلسہ چلا جس میں طلبہ و اساتذہ نے اسلام اور اسلامی قوانین کے مختلف جوانب پر سوالات کئے۔آ خر میں طلبہ و اساتذہ نے اصرار کیا کہ اس طرح کے لکچر بار بار ہونے چاہئیں کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت غلط فہمیاں ہیں اور ایک بہتر اسکالر ہی ان کا جواب دے سکتا ہے۔