حوزه نیوز ایجنسیl
ماه رمضان قمری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے جسے "شہراللہ" کہتے ہیں یعنی اللہ کا مہینہ، رمضان قربانی کا مہینہ ہے اور ہر چھوٹا بڑا مقصد قربانی چاہتا ہے۔
اول وقت نماز کاروبار کی قربانی چاہتی ہے، روزہ لذت کی قربانی مانگتا ہے،حج پیسہ اور خواہشات کی قربانی کا طالب ہے، زندگی مسلسل قربانیوں کا نام ہے۔
نبوت کی منزل میں جناب نوح کو دیکھیں جناب عیسی اور جناب موسیٰ کو دیکھیں جناب ابراہیم و اسماعیل کی زندگیوں کا جائزہ لیں اور خود پیغمبر اکرم ص کی حیات طیبہ پر نظر ڈالیں قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔
امامت کی منزل میں ہر امام کی حیات طیبہ کو دیکھیں قربانیوں سے لبریز ملے گی بشریت کی منزل میں امام خمینی رح کی زندگی کو دیکھیں،علماء اور مراجع کرام کی زندگیوں کا جائزہ لیں،باقر الصدر اور انکی بہن بنت الھدی کی سوانح عمری کو دیکھیں۔
سیاسی نقطہ نظر سے حیدر علی اور ٹیپو سلطان سے لیکر نیلسن منڈیلا ' گاندھی جی ' جناح ' اور رہبر معظم کی زندگی کا جائزہ لیں تو صرف قربانیاں ہی قربانیاں ملیں گی۔
دنیا یوں ہی کسی کے سر پر عقیدت کا تاج نہیں رکھتیی ہاں دعوے دیکھے نہیں جاتے دلیلیں پرکھی جاتی ہیں جن لوگوں نے گولڈ میڈل حاصل کیا ان سے پوچھئیے کتنی مصیبتیں جھیلیں ؟
جن مزدوروں نے تاج محل بنایا ان سے پوچھئیے کتنی راتیں جاگنے میں کٹیں ؟ کتنے پتھر ڈھوئے؟ کتنی چوٹیں کھائیں؟ تب جاکے تاج محل بنا۔
قربانی کبھی گولڈ میڈل کی شکل میں سامنے آتی ہے؛
قربانی کبھی تاج محل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے؛
قربانی کبھی آزادی کی لہر بن کر ابھرتی ہے؛
قربانی کبھی انقلاب کی صورت میں نمودار ہوتی ہے؛
قربانی کبھی منا کی شکل میں سامنے آتی ہے اور قربانی جب اپنے کلائیمکس کو پہنچ جاتی ہے تو کربلا بن جاتی ہے_
رمضان المبارک کے دو موضوع ہیں -
١_ قرآن
٢_ روزہ
قرآن کی نظر میں تقوی روزے کی ترقی کا نام ہے یعنی روزہ جب اپنے حد آخر کو پہنچ جاتا ہے تو تقوی بن جاتا ہے۔
حدیث کی نظر میں روزہ جہنم کی سپر کو کہتے ہیں _
روزہ رکھنے سے پہلے جو کھانا کھایا جاتا ہے اسے " سحری " کہتے ہیں اور روزہ توڑنے کے لئے جو کھانا کھایا جاتا ہے اسے " افطار " کہتے ہیں اور درمیانی حصہ کو " صوم " کہتے ہیں روزے کے یہی دو مستحب کنارے ہیں جو دکھائی دیتے ہیں باقی روزہ اس عبادت کو کہتے ہیں جس کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔
نماز میں قیام و قعود دکھائی دیتے ہیں؛
جہاد میں تلوار چلائی جاتی ہے جو دکھائی دیتی ہے؛
خمس و زکات میں ایک ہاتھ دینے والا ہوتا ہے اور ایک ہاتھ لینے والا جو صاف نظر آتا ہے؛
روزے کا اجر زیادہ اس لئے ہے کہ یہ دکھائی نہیں دیتا یہ صرف نیت ہے مشہور واقعہ ہے کہ ہند و پاک کے کسی وزیر اعظم سے کہا گیا کہ فلاں دیہات میں پانی پاس ہونے کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہے اور اندر سے پائپ لائن بچھانے کی ضرورت ہے اور اس میں اتنا خرچ آئے گا تو اس نے کہا اس کا کیا فایدہ ؟ اتنے مصرف سے تو میں دو پل نہ بنوادوں ؟ پل دکھائی دیتے ہیں اور جو چیز دکھائی دیتی ہے اس میں خلوص کم اور ریاکاری زیادہ ہوتی ہے۔
روزہ چونکہ دکھائی نہیں دیتا اسلئے ثواب بے حساب رکھتا ہے۔
روزہ سیلف کنٹرولنگ سسٹم کو کہتے ہیں جس طرح گاڑی کو روکنے کے لئے " بریک " ہوتا ہے اور گھوڑے کو روکنے کے لئے " لگام " ہوتی ہے اسی طرح انسانی خواہشات کو روکنے کے لئے شریعت نے جو چیز رکھی ہے اسے روزہ کہتے ہیں یعنی روزہ سیلف کنٹرول کو کہتے ہیں_
لوگ کہتے ہیں بھوک میں کیا فضیلت ہے ؟ حدیث کہتی ہے بھوک میں بڑی فضیلت ہے لا تجتمع الفتنہ و البطنہ
ذہانت اور شکم سیری ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے
بھوک ذہانت کو تیز کرتی ہے اس سے بڑا فایدہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟
طاقت کھانے سے نہیں آتی شیر کی جو مزل اسٹرنتھ ہے اسکا عالم یہ ہے کہ وہ سامنے آجائے تو بڑے سے بڑے جانور کی ویسے ہی آدھی جان نکل جاتی ہے مگر کہتے ہیں ہفتہ میں وہ ایک بار کھاتا ہے" مگرمچھ " اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ شیر کی بھی ثانگ پکڑ لے تو ٹوٹ تو سکتی ہے چھوٹ نہیں سکتی مگر کہتے ہیں اسکی غذا محض سات سو گرام ہوتی ہےامیرالمومنین نے نہج البلاغہ میں ڈٹ کر کھانے والوں کا انجام بتایا ہے کہ انہیں بیماریاں گھیرلیتی ہیں اپنے بارے میں فرمایا ما قلعت باب خیبر بقوت جسمانیہ بل بقوت ربانیہ
جی ہاں
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
دوسرے مقام پر اقبال کہتے ہیں
دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
بھوک انسان کو حریم کبریا سے آشنا کرتی ہے بھوک چستی پیدا کرتی ہے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے آیت کتب علیکم الصیام کی تفسیر میں لفظ" صوم " کی وضاحت کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے اسکا خلاصہ یہ ہے کہ در اصل قدیم عرب میں عرب اپنے گھوڑوں کو روزہ رکھواتے تھے جنگ سے پہلے ان پر چارہ پانی بند کر دیتے تھے تاکہ چست رہیں گھوڑا چست رہے گا تو خوب دوڑے گا میدان جنگ سے بھاگے گا گھوڑے کو کھلانے پلانے کا مطلب تھا اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنا اللہ نے کہا تم خود روزہ کیوں نہیں رکھتے ؟گھوڑا کیوں ؟ تم کیوں نہیں ؟ چستی تو تمہارے اندر ہونا چاہئیے وغیرہ
تو معلوم ہوا بھوک سے چستی پیدا ہوتی ہے لیکن ہر بھوک سے نہیں صرف روزے کی بھوک سے
افطار کی مختصر دعا میں جو لفظیں آئی ہیں وہ یہ ہیں
اللھم لک صمت و علی رزقک افطرت و علیک توکلت
خدایا یہ روزہ میں نے تیرے لئے رکھا اور تیرے ہی رزق سے میں نے افطار کیا مطلب یہ کہ اس بھوک نے اللہ سے آشنا کرایا اسکی مرضی میں ڈھلنا سکھایا اور یہی روزے کی اصل اسپرٹ ہے کہ بندے کی نگاہ میں خدا کی عظمت کا جلوہ پھر جائے ورنہ خالی بھوک میں کچھ نہیں رکھا ہے کتنے لوگ کھانا نہیں کھاتے اسپتال میں مریض کئی کئی دن تک نہیں کھاتے مشہور مجاہد آزادی " آنا ھزارے " (آج کل وہ پتہ نہیں کہاں غائب ہیں) نے کم و بیش آٹھ دن تک کچھ نہیں کھایا جس طرح ہر تلوار چلانے والے کو مجاہد نہیں کہتے اسی طرح ہر بھوکے کو روزہ دار نہیں کہتے جب تک کہ روزے کے تقاضے پورے نہ ہوں _
اللہ نے قابل برداشت ضرورتوں کی بندش کے ذریعہ ناقابل برداشت ضرورتوں کی بندش کے امکان کی طرف متوجہ کیا ہے اسنے کھانا پانی اور جنسی ضرورتوں کی تکمیل سے روکا ہے وہ چاہتا تو ہمارے جگر کے نظام ہضم کو روک سکتا تھا خون کے نظام گردش اور پھیپھڑوں کے نظام تنفس کو روک سکتا تھا لیکن وہ ہمیں عسر میں ڈالنا نہیں چاہتا وہ محدود پابندیوں کے ذریعہ ہمارے اندر تقوی کی لا محدود اسپرٹ پیدا کرنا چاہتا ہے_
تحریر:سلمان عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔