حوزہ نیوز ایجنسی| عرصے سے نیمہ شعبان کا انتظار تھا ، نہ جانے کتنی باتیں تھیں نہ جانے
کتنے خواب تھے ، نہ جانے کیا کیا سوچا تھا ،سارے عہد یاد ہیں جو ہم نے مولا سے پچھلے برس کئے تھے سب کچھ یاد ہے جو عریضہ دل کے طور پر آقاکے حوالےکر کے پرسکون ہو گئے تھے کہ اب اگلی شعبان آتے آتے سب کچھ بدل جائے گا۔۔۔
،لیکن افسوس سب کچھ ویسا کا ویسا ہی ہے ، ایک بار پھر پندرہ شعبان گزر گئی اور ہم اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتر سکے۔
خیر اس بار تو حالات بھی کچھ ایسے رہے کہ ظاہری طور جو رسمیں تھیں وہ بھی انجام نہ پا سکیں ،گھر میں بیٹھے بیٹھے ہی وقت گزر گیا ،نہ کسی کے گھرجا سکے نہ کسی کو گھر بلا سکے نہ جمکران نہ عریضہ نہ مسجد نہ حرم نہ پڑوسی کہ ہر گھر پر موت کی دستک ہے
افسوس! موت کے ڈر سے ہم زندہ لاش بنے گھروں میں پڑے رہے اور وہ کچھ نہ کر سکے جوامام کے سپاہی ہونے کے ناطے کرنا چاہیے تھا ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے ٹھیک۔
مانا کہ گھر سے باہر نہیں نکلا جا سکتا تھا لیکن کیا ہم گھر بیٹھ کر اپنےدل کو اپنے آقا کے حوالے کر کے اس طرح بھی نہیں سوچ سکتے تھے جیسے ایک منتظر کو سوچنا چاہیے ؟۔۔۔
افسوس نہ ہم نے اپنے معاشرہ کو لیکر کوئی منصوبہ بندی کی نہ ملک کے حالات کے سلسلہ سے ذہن پر زور دیا کہ کیا کرنا ہے اپنےآپ کو اپنی قوم کو ظلم کی چکی کے چلتے پاٹوں سے کیسے بچانا ہے، جو کچھ ہوا وہ بس اتنا کہ کچھ اعمال تھے وہ کر لئے کچھ اوراد تھے انہیں زبان پرجاری کر لیا اور یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ کرونا کی وبا میں اور ہو بھی کیاسکتا ہے ۔۔۔ یوں ایک اہم تاریخ بھی گزر گئی ۔
کاش ظالم حکمرانوں کی ایما پر اپنے وجود کی بقا کا دیا جلانے کے بجائے ہم کسی کے تاریک گھر میں چراغ جلانے کا بارے میں سوچتے تو یقین ہے ہمارے آقاخوش ہوتے لیکن کیا کریں کہ ہمارا وجود ہی اتنی ظلمتوں میں ڈوب گیا ہے کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا ،ہر شعلے کو روشنی سمجھ کر اسکی طرف بھاگ لیتے ہیں
اور جب دامن جلا بیٹھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کیا کیا بلکہ بسا اوقات تو نہ دامن جلنے کا احساس ہوتا نہ ضمیر جلنے کی بدبو کو محسوس کرتے ہیں ۔
کہتے ہیں کرونا ہو جاتا ہے تو انسان کی قوت شامہ متاثر ہو جاتی ہے ،شایدہم بھی روحانی کرونا مییں گرفتار ہیں جو نہ ضمیر کے جلنے کی بدبو کومحسوس کرتے ہیں نہ جل بھن کر راکھ ہو جانے والے ضمیر کی خاکستر کو دیکھ پا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ فضائے ظہور فراہم کرنے کے بجائے ہم ایسی فضابنانے میں جٹے ہیں جس سے اور بھی تاخیر ہو ۔ کہیں قیادت وسربراہی کی جنگ میں جنگلی خروسوں کی طرح ایک دوسرے کو نوچ کر ظالم حکومت کی خوشنودی میں جٹے ہیں تو کہیں مدارس و اداروں پر اجارہ داری قائم کر کے خدمت قوم کے تمغے سینوں پر سجائے اکڑے بیٹھے ہیں کہ ہم سے بڑا کون ہے؟
ہم سےزیادہ کام کس نے کیا ہے ؟ ہم سے زیادہ خدمت کس نے کی ہے ؟
بجائے اسکے کہ ایک وسیع فکر لے کر قومی سطح پر سوچتے اداروں کی عینک لگا کر سب کچھ دیکھ رہے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ بس وہی لوگ دکھتے ہیں جو ہمارے وجود کے ادارے کوفائدہ پہنچا سکیں، وجود بھی تو ایک ادارہ ہی ہے ، اسکی بھی تو ضرورتیںطہیں۔۔۔
ادارہ بنتا ہے قوم کے مسائل و امور چلانے کے لئے لیکن اب زیادہ تر وہ ہمیں چلا رہا ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ ایک جگہ اگر چار لوگ اکھٹے ہو جاتے ہیں تو ایک نیاادارہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ اسکےبغیرہماراوجودلایعنی ہے یہی وجہ ہےقوم کے پاس ادارے زیادہ ہیں لیکن خدمات کی شرح گھٹتی ہی جا رہی ان مخلصین
کی بات نہیں جو بیچارے صدقِ دل کے ساتھ سخت و دشوار ترین حالات میں ملک وقوم کے لئے مسلسل کام کر رہے کہ انکی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔بات انکی ہے جو ڈھول کا پول ہیں ،
بات خود کی ہے بات اپنی ہے بات اپنے اس قلم کی ہے جو چلتا ہے تو نہ جانے کتنوں کے ڈر سے وادی پر خطر سے بچ بچاکر نکل جاتا ہے کہ بزرگ نما بچوں کے عتاب کو سہنے کی طاقت نہیں ایسے میں سمجھ نہیں آتا ہم ان جوانوں کو کیا جواب دیں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اورہمارے پاس انکی رہنمائی کے لئے کچھ نہیں آخریہ جوان کہاں جائیں ؟ کس سے اپنا درد بیان کریں ؟ اپنے سماج اورمعاشرہ میں رونما ہونے والے حالات پر کیونکر تجزیہ کریں ؟
لوگوں کوتھالیاں بجانے اور دییے جلانے کا ڈائرکشن تو خوب پتہ ہے لیکن انہیں نہیں پتہ وہ ڈائریکشن کہاں ہے جہاں سے اپنے وجود کی تاریکی کو روشن کیا جاتاہے جہاں تاریکیوں میں ڈوبی روح روشنی سے نہا جاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ کعبہ دل مرکز حیات کو چھوڑ کر ہم ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں کہیں اپنے وجود کےاظہار کے لئے تعلقات و روابط کی سیڑھی سر پر اٹھائے مختلف دروں پر خم
نظر آ رہے ہیں، کہیں ظالم و جابر حکمرانوں کی چوکھٹوں پر سر جھکائے کھڑےنظر آتے ہیں تو کہیں سیاسی گلیاروں میں اپنی بولی لگواتے دکھتے ہیں اوراتنا ہی نہیں اگر بات دیندار طبقے کی جائے اس طبقے کی ہو جو بظاہر دردمند ہے اور انقلابی فکر کا حامل ہے تو وہاں اپنے الگ مسائل ہیں جیسے بعض لوگوں کی انقلاب پر اجارہ داری ہے یہاں حالت یہ ہے بعض مخصوص افراد کے سوا کوئی ولایت فقیہ کی بات کرے تو اسے یوں دیکھا جاتا ہے جیسے ابھی ایم آئی سکس کی ٹریننگ لے کے آیا ہو اور ولایت فقیہ کا پرچم لئیے لوگ آپس میں بسا اوقات یوں دست بگریباں نظر آتے ہیں گو کہ یہ نعروں کی جنگ ہے جو جتنا گلا پھاڑے گا اتنا ہی سچا پیرو کہلائے گا جتنی کسی کی ٹانگ کھینچی جائے گی اتنا ہی اسلامی نظام کو فائدہ پہنچے گا جتنا آپس میں ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا اتنا ہی یقین میں اضافہ ہوگا بعض مقامات پر کوئی عام انسان اگر اس بارے میں بول دے یا کسی خاص ڈھپ پر کوئی طالب علم اعتراض کر دے تو یہ بات بھی سننے کو مل جاتی ہے کہ ''تم نے ولایت فقیہ کو سمجھا ہی کہاں ہے تم کل کے لونڈے ہو مدافع ولایت تو فلاں صاحب ہیں پہلے انکی باتوں کو سمجھو پھرولایت کی بات کرو کہیں یہ انجماد ہے تو کہیں کچھ لوگ ولایت کی جڑوں ہی کو کاٹ رہے ہیں "جو ھو ہے وہ علی ع ہے جو علی ع وہ ھو ہے نیچے دیکھو تو علی اوپر دیکھو تو خدا و"۔ ۔۔
لایعنی نظریاتی بحثیں چھڑی ہیں کہیں منتظرین کے چلے کی بات ہے کہیں اسکی مخالفت میں بات ہو رہی ہے اس سے بے خبر کے مولا کو ان چیزوں سے زیادہ نصرت کی ضرورت ہے عملی قدم اٹھا کر آگے بڑھنےوالوں کی ضرورت ہے ان لوگوں کی ضرورت ہے جوانسانیت کے لئے کچھ کر سکیں ان لوگوں کی ضرورت ہے جو گھر میں محصور ہوتے ہوئے اپنےجذبہ پرستش کی تسکین کے لئے علماء بزرگان دین کی تائید کے بغیر نت نئے بھانت بھانت کے اعمال و اوراد نہ تراش کر قوم کی موجودہ وضع قطع کو تراشیں۔قوم خطرناک بیماری سے جوجھ رہی ہے نہ جانے کتنے گھروں میں راشن نہیں ہے ،نہ جانے کتنے دہاڑی پانے والے مزدور ہاتھ پہ ہاتھ دھرےبیٹھے ہیں اور بعض لوگ تعلقات و روابط کی چادر تانے سو رہے ہیں نہ لبوں میں حرکت ہے نہ قلم میں جنبش کہ چارہ جوئی کی جا سکے ،
بسا اوقات کسی ایک غریب تک اگر کچھ راشن و ضرورت کا سامان پہنچتا بھی ہے تو وہ بے چارہ بھوک سےزیادہ غیرت کی مار سے مر جاتا ہے کہ ایک کٹ اگر کہیں دی جارہی ہے تو اسکےدسیوں زاویوں سے فوٹو ضروری ہیں، ظاہر ہے ریکارڈ میں بھی تو رہنا ہے سب کی اپنی اپنی مجبوری ہے، ایسے میں ان حقیقی منتظران وارث حیدر عج پر
سلام جو نام و نمود سے ماوراء خاموشی سے خدمت میں مشغول ہیں جو اگر نہ ہوتے تو اس دور پر محن میں زندگی گزارنا عذاب تھا ۔تمام ایسے جیالوں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے حقیقی چاہنے والوں کو دل سےسلام جنہوں نے آج کی تاریخ کی لاج رکھی اور ہم جیسے افراد کو حدیث دل کا
موقع دیا کہ ہم اپنی حالت پر غور کریں اور سوچیں کہ ہم نے کیا کیا جبکہ ایک بار اور پندرہ شعبان آئی اور گزر گئی اور ہم جہاں تھے وہیں پڑے ہیں۔۔۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔