۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
نجیب

حوزہ/ ہمارے لئے دشمن کی شناخت یوں تو ہر حال میں اہم ہونا چاہیے لیکن اس اعتبار سے دشمن کو پہچاننا اور بھی اہم ہے کہ ہم جس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں وہاں ہزاروں سال سے  مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے رہتے آئے ہیں۔

حوزه نیوز ایجنسی| آج ہم جس دور پر فتن سے گزر رہے ہیں اس میں مجموعی طور پر ہمارا پورا وجود داوں پر لگا ہے مظفر نگر اور بجنور کی تباہیاں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ آگے ہمارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے لیکن افسوس ہم جہاں غفلت کا شکار ہو کر ماضی میں کی گئی کچھ لوگوں کی غلطیوں پر فوکس کر تے ہوئے اپنی طاقت کو داخلی انتشار میں صرف کر رہے ہیں وہیں ہمارا دشمن اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھ لے کر پوری خود اعتمادی کے ساتھ ہماری جڑوں کو کاٹ رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جس درخت کو وہ کاٹ رہا ہے اسی کی شاخ پر بیٹھے ہم سے بعض مطمئن ہیں کہ ابھی تو ہم محفوظ ہیں ایسی صورت میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا کہنے کی ضرورت نہیں ۔ 
آج ہماری بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمیں  خبر نہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے 
  ہمارے لئے دشمن کی شناخت یوں تو ہر حال میں اہم ہونا چاہیے لیکن اس اعتبار سے دشمن کو پہچاننا اور بھی اہم ہے کہ ہم جس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں وہاں ہزاروں سال سے  مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے رہتے آئے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ ایک طرف تو مجموعی طور پر قومیت کے معیار پر ہم اپنے دشمن کو پہچانیں اور دوسرے یہ ضروری ہے کہ مذہبی نقطہ نظر سے بھی ہمیں دشمن کی شناخت کرنا ضروری ہے۔
ہمارے سامنے یہ دنیا مقابلے کی جگہ ہے یہ رزم گاہ ہے اس میں بازی اس کی ہے جو بڑھ کر آگے کی چال چلے اور حریف کو پسپا کر دے اور اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہر قسم کے مقابلے کیلئے دشمن کی پہچان پہلی ضرورت ہے، وہ معاشرے جوآج گمنامی کا شکار ہیں اور انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں اگر ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو نظر آئے گا کہ ان کی تباہی اسی وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے دشمن کو پہچاننے میں غلطی کی اور آپ اگر کسی کامیاب قوم کو آگے بڑھتے دیکھیں اور تاریخ سے اس کی کامیابی کا راز معلوم کریں تو تاریخ یہی بتائے گی کہ کامیابی کے دیگر اصولوں کی رعایت کے ساتھ فلاں کامیاب قوم کو ایک اور ہنر آتا تھا جس کی وجہ سے وہ کامیابی کو اپنا مقدر بنا سکی اور وہ تھا دشمن کی صحیح شناخت اور اس کے حملوں کو پسپا کرنے کی طاقت۔
 گزری تاریخ کی تو بات ہی کیس آج کے دور میں بھی بڑی  بڑی طاقتیں اس بات پر بہت بجٹ لگاتی ہیں کہ دشمن کی شناخت حاصل کر سکیں لہذا پیچیدہ قسم کے سسٹم بنانے اور انہیں ہٹانے  کے بعد کہیں جاکر وہ ایسا فارمولہ بنا پاتی ہیں جس کے ذریعے دشمن کی مکمل شناخت ہو اور اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے اور اسی بات کوان کی بڑی کامیابی کے طور پر جانا جاتا ہے کہ انہوں نے دشمن کو پہچان لیا ہے آج کی دنیا میں بھی یہ تسلیم شدہ اصل ہے کہ آگے بڑھنا ہے تو دشمن کی شناخت ضروری ہے۔
*جب تک ہم دشمن کو نہیں پہچانہیں۔ گے آپس میں دست بگریباں رہیں گے آپسی انتشار سے بچنے کا بھی ایک طریقہ یہی ہےکہ حقیقی دشمن کو پہچانا جائے یہ سمجھا جائے کہ دشمن کہاں ہے کہاں سے حملہ آور ہو سکتا ہے  اور کون ہے؟* اس لئے کہ جب تک انسان جانے گا نہیں اسے نقصان کہاں سے اور کون پہنچا رہا ہے تو اس کا سد باب نہیں کر سکےگا۔
اور جب وہ دشمن کے حملوں کو روکنے کی کوشش کرے گا تو اسے اپنی داخلی قوت بڑھانا ہوگی اور داخلی قوت کو بڑھانے کے لئے اسے دل بڑا کرنا ہوگا اپنوں کی کوتاہیوں سے گزر کر دشمن کی خطاوں پر ذہن و دل و دماغ کو مرکوز کرنا ہوگا *یہاں پر ایسا نہیں کہ انسان قوم کے خیانت کاروں اور غداروں کو بھول جائے ہرگز نہیں انہیں بھی ذہن میں رکھنا ہوگا ان سے نبٹنے کے لئے وقت رہےگا اگر اصلی دشمن کو ٹھکانے لگا دیا لیکن آپس میں ہی ایک دوسرے کو خائن و غدار سمجھتے رہے تو دشمن کو ہم سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں  ہوگی کیونکہ ہم تو اسکے سپاہی بن کر ہر محاذ پر پہلے ہی اسکا کام کر چکے ہوں گے* لہذا ضروری اور بہت ضروری ہے کہ ہم جانیں ہمارے خون کا پیاسہ کون ہے ہمارے وجود کو مٹانے کی قسم کس نے کھائی ہے ہمیں تباہ کرنے کے رجز کون پڑھ رہا ہے جب تک اس پر ہم غور نہیں کریں گے جانے انجانے دشمن کا آلہ کار بن کر کہتے رہیں گے کہ ہمیں دیکھنا ہے فلاں کیا کہہ رہے ہیں فلاں کا کہنا کیا ہے ؟ اور یوں ہم عمل کو بھلا کر لچھے دار باتوں کو معیار بناتے ہوئے اپنے دشمن کا کام کرتے رہیں گے۔
 آگر ہماری طبیعت شدید سردی کی متحمل نہیں ہے تو ہمیں گرم لباس کی ضرورت پڑتی ہے گرم فضا و حرارت کی ضرورت پڑتی ہے جب ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ سردی ہماری دشمن ہے تو ہم اس سے بچنے کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیتے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ فلاں  قسم کا وائرس ہمارے لئیے خطرناک ہے تو ہم ٹیکے کا انتظام کرتے ہیں جب تک دنیا میں میکروب کی شناخت نہیں ہوئی تھی نہ جانے کتنے انسان انجانے میکروب و بیکٹریا کا شکار ہو کر چل بستے تھے لیکن جب انسان نے پہچان لیا کہ میکروب کتنے قسم کے ہوتے ہیں اور انکا عمل کیا ہوتا ہے انکا سسٹم کیا ہے تو اب انسان نے اس کا علاج بھی ڈھونڈ نکالا اور آج علم طب نے مختلف میکروب و جراثیم سے لڑنے کی دوائیں تیار کر لیں۔ دشمن بھی اسی طرح ہے جب تک پہچانا نہیں جائے گا اس کی زد پر آ کر معاشرہ خاموشی کے ساتھ موت کی آغوش میں سوتا رہے گا لیکن جب پہچان ہو جائے کہ ہمارا دشمن کون ہے تو انسان اس سے مقابلہ کی راہوں کو ڈھونڈ نکالے گا۔  
 جس طرح ایک ماہر شطرنج کے کھلاڑی کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مد مقابل حریف کی فکر کو پڑھ لیتا ہے اور ایسی چال چلتا ہے کہ طرف مقابل بھول ہی جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اسی طرح دشمن شناسی بھی ہے جو انسان اپنے دشمن اور اس کی چالوں سے واقف و با خبر ہوتا ہے وہ کبھی اس کی چال میں گرفتار نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود غفلت کا شکار نہ ہو اور بیدار ہو۔
چنانچہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں:ہمیں غفلت کا شکار نہ ہو کرہمیشہ بیدار اور ہوشیار رہنا ہوگا، ہمیں چاہیئے کہ دشمن کی سازشوں کو عملی جامہ پہننے سے پہلے بھانپ لیں اور انہیں پہچان کر ناکام بنا دیں (1) لہذا ضروری ہے کہ انسان ہر پر پل اور ہر لحظہ بیدار رہے اور اپنے دشمن سے ہوشیار رہے اگر وہ غفلت برتے گا تو ہلاکت اس کا مقدر ٹہرے گی جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: جو اپنے دشمن کے مقابلے میں خواب غفلت کا شکار ہوگا تو پھر دشمن کا فریب ہی اسے چونکائے گا۔ (2)
دشمن کے سامنے غفلت کا مطلب اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنا ہے رہبر انقلاب اسلامی ایک مقام پر فرماتے ہیں: "میں آپ سے تاکید کرتا ہوں کہ اپنے دشمن کو پہچانیں، وہ قومیں ہلاک ہو گئیں جنہوں نے دشمن کو نہیں پہچانا، ایک قوم کو لاحق مختلف خطروں میں ایک خطرہ دشمن کو نہ پہچاننا یا پھر دشمن کو اپنا دوست سمجھنا ہے یہ ایک بڑا خطرہ ہے،یہ خواب غفلت میں سو جانا ہے،دشمن کو پہچاننا بھی ضرور ی ہے اس کے منصوبوں سے واقف ہونا اس کی چالوں کو جاننا بھی ضروری ہے اس کے دشمنی کے طریقوں سے آگاہی ضروری ہے کہ ہم دیکھیں وہ کیا کرتا ہے ؟ اس کی دشمنی کا انداز کیا ہے ؟ *ہرگز غافل نہیں رہنا چاہیے اگر ایک پل کے لئے بھی ہم غافل ہو گئے تو برباد ہو جائیں گے اگر ہم غافل ہوئے توہم پر شبیخون مارا جاءے گا* جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:میں اس پرندہ کی طرح ہرگز نہیں ہوں جو عام طور پر جب سوتا ہے تو کچھ گنگنایا جاتا ہے اس کے لئے لوریوں کی شکل میں کچھ پڑھا جاتا ہے اور وہ سوجاتا ہے، میں ہرگز سونے والا نہیں ہوں میں جاگ رہاہوں اور دیکھ رہاہوں* میرے اطراف میں کیا ہو رہا ہے (3) ہم سے ہمارے ائمہ طاہرین نے یہی مطالبہ کیاہے کہ ہم جاگتے رہیں خواب غفلت کا شکار نہ ہوں۔ (4)
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں: *جان لیں کہ ہمارا دشمن ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا ہے بلکہ مسلسل منصوبہ بندی میں مشغول ہے اب ہمارا ہنر یہ ہے کہ ہم دشمن کے منصوبے کو اس کے فریب کو اس کی چال کو پہچان لیں اور جہاں سے وہ اپنی منصوبہ بندی کر رہا ہے جہاں سے ہم پر یلغار کر رہا ہے اس مقام کو پہچان لیں اور اس سے مقابلہ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہوں مقابلے کا حوصلہ رکھتے ہوں (5) ہمارے پاس فکر ہو، دشمن کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی تمام مصیبتوں اور آفتوں کی جڑ ہےیقینا دشمن کو نہ پہچاننے کا نتیجہ قوم و ملت کی تباہی ہے اب جہاں ضروری ہے کہ ہم دشمن کو پہچانتے ہوں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حقیقی دشمن اور جھوٹے دشمن کو بھی پہچاننے کا ہنر رکھتے ہو تاکہ ایسا نہ ہو کہ دوست کو دشمن اور دشمن کو خدا نخواستہ اپنا دوست بنا لیں یا اپنی طاقت دشمن کے بجائے اپنوں کو برہنہ و ننگا کرنے پر لگا دیں کہ اس عمل سے ہم دشمن کی اس اسٹراٹیجی کو تقویت پہنچائے گے کہ کسی بھی قوم کو دبانے کا ایک بہترین طریقہ اسے مایوسی کا شکار بنا دینا اور ہر ایک سے بھروسے کو اٹھا پوری قوم کو ایک دوسرے کے سامنے مشکوک بنا دینا ہے اس طرح سب آپس میں الجھ جائیں گے اور ایک دوسرے کو خاکی نیکر پہناتے رہیں گے جب اصلی دشمن پوری قوم کو خاک میں گاڑتا رہے گا گلیاں اجڑتی رہیں گی ماوں کی گودیاں سونی ہوتی رہیں گی دکانیں سیل ہوتی رہیں گی گھروں میں توڑ پھوڑ ہوتی رہے گی سہاگ اجڑتے رہیں گے لاشے گرتی رہیں گی* اور ہم ایک دوسرے کو مجرم بناتے رہیں گے دشمن اپنا کام کرتا رہے گا ہم اسکا کام کرتے رہیں گے ۔

حواشی:  
1۔ صحیفہ نور ج7 ص48

2۔ غررالحکم ج5 ص344۔

3۔۔ نہج البلاغہ، خطبہ 6۔

وَ اللَّهِ لَا أَكُونُ كَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَى طُولِ اللَّدْمِ حَتَّى يَصِلَ إِلَيْهَا طَالِبُهَا وَ يَخْتِلَهَا رَاصِدُهَا وَ لَكِنِّي أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْهُ وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِيعِ الْعَاصِيَ الْمُرِيبَ أَبَداً حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمِي فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّي مُسْتَأْثَراً عَلَيَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَتَّى يَوْمِ النَّاسِ هَذَا .
4۔ http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?tid=5393
5. اِیضا۔
تحریر: مولانا نجیب الحسن زیدی

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا تحریر نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .