۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
خواتین

حوزہ/ایرانی مذہبی شہر قم مقدسہ میں مقیم ہندوستانی خواتین نے جمع ہوکر، CAA  اور NRC کے خلاف احتجاج کیا اور وطن سے اپنی محبت اور ہندوستان کے مستقبل پراپنی تشویش کا اظھار کیا.

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 22دسمبر، اتوار کے دن شام کو، قم مقدسہ میں مقیم ہندوستانی خواتین نے جمع ہوکر، CAA  اور NRC کے خلاف احتجاج کیا اور وطن سے اپنی محبت اور ہندوستان کے مستقبل پراپنی تشویش کا اظھار کیا.

ان میں سے بعض خواتین نہایت سردی کہ باوجود،  اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیکر اس احتجاج جلسے میں شرکت کی.

جلسے میں شریک خواتین کا کہنا تھاکہ ہمیں اپنے وطن کی محبت لائی ہے. ہندوستان اتنا لگاو اس لئے ہے، کہ ہندوستان مختلف مذاہب کا گهر ہے، سب سے بڑی جمہوریت ہے کہ جس میں مختلف تہواروں کو تمام مذاہب کے لوگ محبت کے ساتھ مل کر مناتے ہیں، یہاں مختلف تہزیبوں کا سنگم ہے جو دنیا میں کہیں اور نظر نحیں آتا. کہیں ایسا نہ ہو کہ ہندوستان کی یہ تصویر  لوگوں کے ذہن میں بدل جائے.

اطلاع کے مطابق پروگرام کی پہلی مقررہ خواہرعابدی تھیں جنہوں نے اپنی تقریر کو اس حدیث سے آغاز کیا کہ "العالم بزمانه لا تهجم عليه اللوابس". آپ نے موجودہ حکومت کے ان اقدامات پر جو مسلمانوں کے خلاف تهے، اشارہ کرتے ہوئے کہا ہندوستان کو تیزی سے بدلا جارہاہے، وہ مسلمان جن کے اجداد کی قبریں یہاں ہے، جن کی لاتعداد عبادتگاہیں یہاں ہیں، جن کے اجداد نے اپنا خون اپنے ملک کی آزادی کے لئے  اس مٹی میں ملایا، انہیں بعض عناصر دوسرے درجہ کا شہروند بنانا چاہتے ہیں،  خواہر عابدی نے NRC کے بارے میں کہا کہ NRC فانون نہیں ہے بلکہ معلومات کا ایک ذخیرہ ہے، جس میں ہندوستان شہری کا نام اور دوسری خصوصیات درج کی جاسکتی ہیں. آسام کے خاص حالات کے سبب ایک طولانی  عرصہ سے  یہ موضوع بحث بناہے، 2003  میں واجپائی کی حکومت نے قانون میں یہ ترمیم کی کہ اگر حکومت چاہے تو پورے ملک کے لئے ایسا رجیسٹر بناسکتی ہے، جب کہ ہم چانتے ہیں کہ ہزاروں کڑوڑوں روپیہ خرچ کرکے، آدهار کارڈ کے ذریعہ، یہ معلومات جمع کی جاچکی ہیں، تو اب NRC کی ضرورت کیا ہے! محترمہ زیدی نے CAA  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا حکومت اگر کسی کو باشندگی دے رہی ہے تواسسے کسی کو اختلاف نہیں ہے، لیکن CAA  اور NRC کو ملاکر جو پیکیج ہے وہ تشویشناک ہے. اسکے زریعہ بہت سے افراد سے ہندوسانی شہریت چهینی جاسکتی ہے، اورغیرمسلمانوں کو CAAکے ذریعہ شہریت دی جا سکتی ہے. ہم آسام میں دیکھ رہے ہیں، جہاں یہ اجرا ہورہا ہے، کہ لوگوں نے اپنی مختصر جمع پونجی لگادی ہے، زمینیں اور گہنیں بیچ کے شہر تک سفر کرتے ہیں، کئی کئی گهنٹے لاینوں میں لگ کے، اپنے کاغذات کو جمع کررہے ہیں، دلال الگ الگ بہانوں سے ان سے پیسں لوٹ رہے ہیں، اتنی زحمتوں کے بعد بهی 19 لاکھ سے زیادہ لوگ کا نام اس فہرست میں نہیں نکلا، آخر انکا آیندہ کیا ہے، یہ ابهی کسی کو نہیں معلوم. حکومت کا یہ اقدام، لوگوں کے ذہنوں کو مشغول رکهنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں حکومت کی ناکامیوں کے بارے میں سوچنے کا موقع نہ ملے. اس ایکٹ کا حاصل، ایک بڑی تعداد غریبوں اور مسلمانوں کی ہے جن سے ووٹ کا حق چهینا جا  سکتا ہے. اور شاید مستقبل میں دوسری اقلیتیں بھی اسکا شکارہوں. آگے کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں پیش‌گوئی نہیں کی جاسکتی. ہمیں اس خطرناک منصوبے کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے، اپنے آپ کو علمی، روحی اور تشکیلاتی طور پر مستقبل کے لئے آمادہ کرنا چاہئے. 

اس جلسہ کی دوسری مقررہ، خواہر حنا عابدی نے اسلام میں خواتین کی سیاسی اور اجتماعی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خداوند عالم نے مرد اور عورت دونوں کو یکسان خلق کیا اور مختلف فرائض کا ذمہ دار بنایا، عورتوں کی مختلف ذمہ داریوں میں جہاں نسل کی اچهی پرورش ہے تو وہی وقت کی ضرورت کو مدنظر رکهتے ہوئے، مردوں کے شانہ بہ شانہ آنا بهی قرار دیا ہے. تاریخ اسلام میں ہم کو ام سلیم اور ام ورقہ کی مثالیں نظر آتی ہیں. اور خود حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت میں کتنی مثالیں موجود ہیں جو خود وقت پڑنے پر، جنگ کے میدان تک تشریف لے آئیں. اسلام نے عورتوں کو یہ برابری کا مقام اس وقت دیا کہ جس وقت کے مذاہب، عورت کو نہ لایق تعلیم سمجهتے تهے اور نہ جنت میں جانے کا حقدار. خواہر عابدی نے حالات حاظرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ شاید ہم وطن سے دور ہندوستان کے تمام حالات کو نہیں سمجھ سکتے مگر ہم کو اندازہ ہے کہ وہ لوگ جو سڑکوں پر ہیں اور ظلم کے خلاف آواز اٹها رہے ہیں وہ کن سختیوں سے گزر رہے ہسں. ہم لوگ دور سے انکی حمایت تو کرہی سکتے ہیں، کہ ان کو یہ پیغام ملے کہ دنیا کی عورتیں ان کے ساتھ ہیں. خواتین ہندوستان پر، ان ماؤں اور بہنوں پر ہمارا سلام ہے، جو اپنے بیٹوں، شوہروں اور بهائیوں کو سڑکوں پر بهیج رہی ہیں، کہ جن کو معلوم ہے کے وہاں ان پر پهول نہیں، بلکہ لاٹهیاں اور گولیاں برسائی جاسکتی ہیں.

اذان مغرب سے کچھ پہلے ناظم نے مدح معصومین میں شعر کہنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے، شاعرہ محترمہ رضوی کو، اپنا کلام پیش کرنے کے لئے مایک پر بلایا،  اور انہوں نے خدمت حضرت صاحب الزماں میں اپنے مناجاتیہ کلام کو سامعین کے سامنے پیش کیا.

عدل، پیار اور قربانی اٹھ گئی ہے دنیا سے        مضطرب ہے ہر انساں... المہدی ادرکنی 

ظلم و جور کا پانی سر سے ہوگیا اونچا                وارث شہ ذیشاں ....المہدی ادرکنی

نماز کا وقت ہوتے ہی پروگرام میں، نماز کے لئے بیس منٹ کا وقفہ دیا گیا، نماز کے بعد محترمہ نقوی نے، نہج البلاغہ کے خطبہ 216 سے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے اس جملے کو بیان کیا کہ:

فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلاَّ بِصَلاَحِ الْوُلاَةِ، وَلاَ تَصْلُحُ الْوُلاَةُ إِلاَّ بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِيَّةِ .  لوگوں کی اصلاح ممکن نہیں ہو سکتی جب تک حاکم صالح نہ ہو اور حاکم صالح نہیں رہ سکتے جب تک رعایا میں استقامت نہ پائ حاتی ہو.  مطلب اگر حاکم غلطی کررہا ہو تو رعایا میں ایسے بااستقامت لوگ ہونے چاہئے جو اس کی ہاں میں ہاں نہ ملائے، بلکہ وہ حق کی حمایت کرکے حاکم کو متوجہ کریں. کربلا میں بهی ہم دیکهتے ہیں جس وقت حاکم نے ظلم کا آغاز کیا، لوگوں کی ایک بڑی تعداد  نے مخالفت نہیں کی کہ جسکے نتیجے میں تاریخ انسانیت میں اتنا بڑا ظلم ہو گیا.

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جیسا محترمہ نقوی نے کہا کہ "الناس علی دین ملوکهم" لوگ اپنے حاکم کہ دین پر چلتے ہیں ہم دیکھ رہے ہیں کہ جیسے جیسے متعصب فرقے کی قدرت بڑھی ویسے ویسے ہمارے ملک  کے اکثر لوگوں میں فرقہ واریت اور مذہبی تعصب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے. کل جو چنگاریاں تھیں وہ آج شعلوں میں بدل رہی ہیں، کل تک جو  ہندو مسلمان ایک دوسرے کے ساته اٹهتے بیٹهتے تهے، دھیرے دھیرے دوریاں اور بغض پیدا ہورہا ہے. ظلم کے خلاف آواز اٹهانا، یقینا اسلام میں پسندیدہ ہے. اسلام پسند نہیں کرتا کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹها رہے، بلکہ جتنا حق کی خاطر  جد و جہد  کرتا ہے، اتنا اسکا اجر زیادہ ہوتا ہے. آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ استعمار ہندوستان سے ختم ہوچکا ہے مگر استعماری فکر، ایک طبقہ میں موجود ہے جو سوچ رہی ہے کہ بس ہماری قوم برتر اور باقی رہے اور دوسرے ختم ہوجائں. یہ صہیونیستی افکار کیوں ہماری حکومت کے اقدامات میں جهلک رہے ہیں. آج ہم کو چاہیئے کہ اپنے ہندو بهائیوں کو آگاہ کریں کہ اسلام جنگ اور تشدد کا مذہب نہیں ہے اور شدت پسندی چاہے کسی بهی مسلک فکر سے تعلق رکهتی ہو، اسکا نتیجہ دردناک ہوتا ہے.

ظلم پهر ظلم ہے، بڑهتا ہے تو مٹ جاتا ہے                خون پهر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

آج ہمارے قوم کو ضرورت ہے، اپنے آپ کو علمی میدان میں آگے بڑهائے، اتحاد اور بصیرت کے ساته،  حقیقی اسلام سے دوسروں کو آشنا کرائے.      

پروگرام کے اختتام پر ایک بیانیہ پیش کیا گیا جس میں خواہر بوجانی نے حاضرین کے دل کی آواز کو اس طرح پیش کیا کہ ہم ہندوستان کے مختلف علاقوں کے رہنے والے اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں، اس کے آئین  سے ہمیں پیار ہے، ہم رہیں یا نہ نہیں، ہمارا ملک ہمیشہ رہے گا. ہمیں افسوس ہے کہ کچھ خاص نظریات کے حامل افراد اس ملک کے خلاف سازشیں رچ رہے ہیں، اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، اس ملک کی آزادی کے لئے ہمارے بزرگ ، پهانسی کے پهندوں میں جهول گئے مگر افسوس آج ہمارا ملک ایک غلامانہ سوچ میں گرفتار ہے،  ہم ان لوگوں کی مذمت کرتے ہیں، جو اقتدار اور ہوس کی آگ میں، اس ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں. یہ شہریتی قانون واضح طور پر ہندوستان کے آئین کے خلاف ہے، کہ جو تمام شہریوں کو، بغیر کسی تفریق رنگ و مذہب، برابر کی حقوق دیتا ہے.  لهذا اسی وجہ سے ہم اس بل کی مخالفت اپنا آئینی اور انسانی حق جانتے ہوئے صاحبان اقتدار سے اسے منسوخ کرنے کی پرزور مانگ کرتے ہیں. آج مظاہرہ کرنے والے، ہندوستان کی آئین کے حفاظت کے لئے کهڑے ہوئے ہیں اور ان کو تحفظ دینا، حکومت کی ذمہ داری ہے. آج  پولیس لوگوں کے گهروں میں داخل ہوکر تشدد  اور بربریت کا برتاو کررہی ہے، آج اس ملک میں حتی خواتین اپنے گهروں اور ہاسٹل کے کمروں میں، یا یونیورسٹی کی لائبریری میں امن کا احساس نہیں کرسکتی، کیا یہ وہی ہندوستان ہے؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟، ہم مظاہرہ کرنے والوں سے امن اور بهائی چارہ ماحول بنانے رکهنے کی اپیل کرتے ہیں،

اس بیانیہ میں دوسرے مختلف نکات کی طرف اشارہ کیا اور یہ بهی اعلان کیا گیا کہ ہم حکومت ہند  کو توجہ دلانا چاہتے ہیں، ان عناصر کی طرف کہ جو پر امن ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم ہرگز تشدد اور عمومی اموال کو نقصان پہچانے کے قائل نہیں ہیں.

اس پروگرام کے آخر میں حاضرین نے  ساری دنیا میں امن اور برادری کا ماحول پیدا ہونے کی دعا  کی اور ساتھ ہی دنیا میں جہاں بهی ظلم اور استبداد ہو رہا ہے، بارگاہ رب العزت سے مستضعف لوگوں کی نجات کی درخواست کی.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .