۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
یوم جمہوریہ ہند کی مناسبت سے قم مقدس میں  ہندوستانی باشندوں کی باوقار تقریب

حوزہ/ ایران کے معروف شہر قم المقدس میں مقیم ہندوستانی طلبہ نے 26 جنوری کی شب وطن عزیز ہندوستان کے یوم جمہوریہ کی یاد میں ایک بزم کا انعقاد کیا جس میں ہندوستانی طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یوم جمہوریہ کی مناسبت سے ایران کے مذہبی شہر قم مقدس میں یوم جمہوریہ کی باوقار تقریب منعقد ہوئی جس میں طلاب و افاضل و دانشوران ملت ، علماء و بزرگان دین کے ساتھ قم میں مقیم دیگر ہندوستانی باشندوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، یوم جمہوریہ کی مناسبت سے ہونے والا یہ پروگرام قم کی معروف علمی درسگاہ مدرسہ حجتیہ کی مسجد میں منعقد ہوا۔

تصویری جھلکیاں: یوم جمہوریہ ہند کی مناسبت سے قم مقدس میں ہندوستانی باشندوں کی باوقار تقریب

اس پروگرام کا آغاز حجۃ الاسلام و المسلمین جناب جواد رضوی کی خوبصورت تلاوت قرآن پاک سے ہوا بعدہ تقریب کے ناظم جناب حجۃ الاسلام المسلمین امان حیدر صاحب نے یوم جمہوریہ کی اہمیت پر روشنی ڈالے ہوئے اس بات کو بیان کیا کہ ہم ۲۶ جنوری کو جشن کیوں مناتے ہیں اور اس دن ہمیں کیا حاصل ہوا ہے، ہندوستانی بنیادی دستور العمل کے نفاذ کی تاریخ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے مختصر طور پر اس بات کو بیان کیا کہ برطانوی تاج کے زیر نگیں رہنے والا ملک درحقیقت اس دن مکمل طور پر خود مختار ہوا جب ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کو بدل کر ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ کو اسے پورے ملک میں نافذ کر دیا گیا۔

اسکے بعد ناظم جلسہ نے جناب حجۃ الاسلام المسلمین امان حیدر کاشف رضا صاحب کو کلام پڑھنے کی دعوت دی جنہوں نے بہت ہی خوبصورت و دل نشین انداز میں وطن کی محبت و وفاداری پر بہترین کلام پڑھ کر مجمع کو مسحور کر دیا۔

اسکے بعد ناظم جلسہ نے حجہ الاسلام و المسلمین جناب شمیم رضا صاحب قبلہ کو دعوت تقریر دی جنہوں نے آزادی کی ااہمیت و افادیت پر زور دیتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ ہم ہندوستان کی آزادی کا جشن کیوں مناتے ہیں اور آزادی سے ہمیں کیا حاصل ہوا محترم مقرر نے اپنی تقریر میں تمام اہل وطن کو یوم جمہوریہ پر تہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے حسب ذیل اہم نکات کی طرف اشارہ کیا
1 --سامراج کے پنجوں سے آزادی حاصل کرنا جتنا سخت ہے اس سے کہیں زیادہ سخت اس آزادی اور استقلال کو بچانا اور محفوظ رکھنا ہے
2 -- 1857 سے لیکر 1947 تک 90 سال تحریک آزادی میں شامل 50 ملین لوگوں کی جد وجہد اور سعی پیہم سے حاصل ہونے والی آزادی کو کسی بھی صورت گنوایا نہیں جاسکتا
3 --72 سال پہلے ہمیں جو استقلال ملا ہے اور غلامی کی زنجیر کو ہمارے بزرگو نے ہمیشہ کے لئے ہمارے پیروں سے اتروا دیا ہے اور ہندوستان کا بنیادی قانون نافذ ہوا ہے وہ ہمارے لئے امن وامان اور سالمیت اور ہر ہندوستانیوں کے لیے مساوات ، برابری اور آزادی کا ضامن ہے
4 -- ہندوستان کا نظام حکومت سیکولر اورفیڈرل جمہوریت ہے یعنی ہر ہندوستانی کی اپنے آپ پر حکومت
لیکن افرا تفری سے بچنے کے لئیے ہر ایک کو حق انتخاب حاصل ہے کہ وہ اپنا مقدر کسی امین ہاتھوں میں سونپ کر اسے اپنا حاکم مان لے اس پنا پر حاکم کی حکومت ہندوستانی عوام کی امانت ہے اس میں خیانت کو برداشت نہیں کیا جائیگا
5 -- ہم نہ ہرحکومت کے مخالف ہیں اور نہ ہرحاکم کے بلکہ ہمیں بعض موارد میں کہیں طرز حکومت پر اعتراض ہوتا ہے وہ بھی اس جگہ جہاں اہل وطن کے حقوق پائمال ہو رے ہوں تو کہیں اس حاکم پر جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرتے ہوئے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جسے ہر باضمیر انسان تسلیم کرتا ہے
6 -- ہمارا دین بھی آزادی کو بہت اہمیت دیتا ہے اور جیسا کہ امیر المومنین نے فرمایا :تم اپنے کو کسی کا غلام کا مت سمجھنا کیوںکہ خدا نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے
7 -- جیسے ہم اپنے بزرگوں کی جانفشانیوں کو یاد کرتے ہیں اور شہیدوں کو سلامی پیش کرتے ہیں اسی طرح ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس آزادی کو آئندہ نسلوں تک بغیر کسی کمی کے پہنچا سکیں۔ حجۃ السلام والمسلمین جناب شمیم رضا رضوی صاحب کی پر جوش تقریر کا اختتام ہندوستان زندہ باد کے نعروں پر ہوا ۔

تقریر کے بعد ناظم تقریب نے جناب عامر نوگانوی صاحب کو منظوم کلام پیش کرنے کی دعوت دی ، جناب عامر نوگانوی نے حب الوطنی سے سرشار اپنے سنجیدہ و پر مغزکلام سے سامعین کے دلوں کو موہ لیا اور خوب خراج ِ تحسین حاصل لیا ۔ جناب عامر نوگانوی کے کلام ک اختتام پر پروگرام کا پہلا حصہ مکمل ہوا۔

دوسرے حصے کے آغاز میں اس مرحلے کے بعد مہتممین ِ تقریب کی جانب سے"ملک کا آئین اور ہمارا مستقبل " کے عنوان کے تحت ایک مختصر ٹاک شو کا اہتام کیا گیا تھا جس کے لئے پروگرام کے ناظم نے میزبانی کی فرائض انجام دینے کے لئے حجۃ الاسلام و المسلمین محمد سورت والا کو اسٹیج پر دعوت دی اور میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے جناب مولانا سورت والا نے افاضل قم میں سے ہی دو شخصیتوں حجۃ الاسلام و المسلمین جناب سید عاکف زیدی و حجۃ الاسلام و المسلمین جناب سید نجیب الحسن زیدی صاحب کو اسٹیج پر آنے کی دینے کے ساتھ موضوع پر مختصر و جامع روشنی ڈالی۔

حجہ الاسلام و المسلمین جناب محمد سورت والا ملک کے آئین کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے موضوع اس بات کو بیان کیا کہ ہمارے لئے ہمارے ملک کا آئین کیونکر اہم ہے اور ہمارے مستقبل میں اسکا کیا کردار ہے اسی سلسلہ سے انہوں نے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب عاکف زیدی سے سوال کیا کہ آئین میں جن چیزوں کو بیان کیا گیا ہے ان کے مد نظر آپ کی نظر میں فی الوقت ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے جس کے جواب میں محترم مہمان نے کہا: اس وقت اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں دو ہندوستان ہیں ایک وہ ہندوستان ہے جو زمین میں اور مٹی پر ہے اور ایک وہ ہے جو بادلوں پر سوار ہے جو ہندوستان زمین پر ہے وہاں چند ہزار بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جا رہے رہیں ۳ہزار سے سات ہزار تک کی تعداد موت کی شرح کے طور پر بیان کی جا رہی ہے ،اور یہ معاملہ کسی خاص دن کا نہیں ہے روزانہ اتنی تعداد میں ماوں کی کوکھ اجڑ رہی ہیں روزانہ گھروں میں ماتم ہے ،جب کہ تعلیم کے میدان میں سب واضح ہے کہ ہندوستان کتنا پچھڑا ہوا ہے آب و ہوا کو دیکھ لیں تو واضح ہے کہ ہم کہاں ہیں ،ہمارا ملک کہاں ہے اسے سمجھنا ہے تو ذرا لاک ڈاون کے مرحلے کو دیکھیں ہمارے ملک میں جب لاک ڈاون ہوا تو دنیا کے کسی ملک میں وہ سب کچھ دیکھنے کو نہیں ملا جو ہم نے ہندوستان میں دیکھا ، بالکل اچانک اور اتنا سخت لاک ڈاون جس میں غریب طبقے کی مشکلات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ، وہ لوگ جنکی زندگی یومیہ آمدنی پر ہے ان سے کہا جا رہا ہے آپ ایک دو مہینہ گھر پر ہی رہیں باہر نہ نکلیں یہ کتنی عجیب بات ہے ،یہ لوگ کتنی طولانی مسافت تک پیدل چل کر اپنے گھروں تک پہنچے اور کتنے ہی لوگ راستے میں جا ں بحق ہو گئے ، کتنے پولیس کی لاٹھیوں کو نہ سہہ سکے اور انکا دم نکل گیا کتنے ٹرین سے کٹ کر مر گئے کتنے بھوکے پیاسے پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہوئے اپنے گھروں تک پہنچ سکے یہ ہمارے ملک کی صورت حال ہے ، اس وقت ملک میں غربت کی بھکمری کی یہ حالت ہے کہ حالیہ سرکاری رپورٹوں کے مطابق ابھی جو بچے جوان ہو رہے ہیں انکے قد کی اوسط شرح گھٹ چکی ہے ، دنیا میں ہر نسل کا قد پچھلی نسل سے بہتر ہے لیکن ساری دنیا کے برخلاف ہندوستان میں قد کی اٹھان میں کمی آ رہی ہے نئی نسل کا قد ہندوستان میں پرانی نسل سے کم ہے یہ غذائیت کی کمی و بھوک و غربت کی ایک طرح کی نشاندہی ہے ۔ دوسری طرف جہاں مالداروں کی بات ہے تو ہندوستان کے جو دس سب سے زیادہ ارب پتی لوگ ہیں اگر انکی دولت ان سے لی لی جائے اور ان کے پاس ایک معمولی عزت مند زندگی کے لئے ضروری سہولتیں ہوں تو انکی دولت سے ۲۵ سال تک تمام ہندوستانی اپنی یونیورسٹی کے تعلیم کے تمام اخراجات اٹھا سکتے ہیں ، یعنی ۲۵ سال تک تعلیم کے میدان میں سرکاری بجٹ پورا ہو سکتا ہے ۔

اس مقام پر اس گفتگو کے میزبان جناب حجہ الاسلام و المسلمین محمد صورت والا نے مولانا سید نجیب الحسن زیدی صاحب سے سوال کیا کہ یہ تو ملک کی صورت حال ہے آپ ملک میں مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں کیا کہیں گے جواب میں محترم مہمان نے بیان کیا ، اگر ہم کسی ایسی کشتی پر سوار ہیں جو ڈوب رہی ہے تو جو عرشے پر ہے وہ بھی ڈوبے گا جو نچلے طبقے پر ہے وہ بھی ڈوبے گا ڈوبنا سبھی کو ہے بس اتنا ہے کوئی پہلے ڈوبے گا کوئی بعد میں جب ملک میں غربت عام ہے ملک میں جہالت کا دور دورا ہے ملک میں آج بھی لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو ظاہر ہے مسلمان بھی اسی ملک کا حصہ ہیں یہ سب مشکلات انہیں بھی در پیش ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان زیادہ مسائل کا شکار ہیں کیونکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی شرح خواندگی دیگر تمام اقوام سے کمتر ہے حتی تعلیم کے میدان میں مسلمان دلتوں اور پچھڑوں سے بھی گئے گزرے ہیں ، جناب نجیب الحسن زیدی صاحب نے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کس طرح تعلیم، صحت و سرکاری نوکریوں میں مسلمان دیگر ہندوستانی اقوام سے پیچھے ہیں حتی یہ جو تعلیم کے سلسلہ سے شور ہے کہ مسلمان اس لئے پیچھے ہیں کہ انکے بچے جدید تعلیم کے لئے نہیں جاتے اور مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو مدارس میں بھی کل ۴ فیصد بچے ہی پڑھتے ہیں تو اسکا جواب یہ نہیں ہے کہ ہم اس لئے پیچھے ہیں کہ مدارس میں ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں یہ تو چار فیصد ہی ہیں باقی کیا کررہے ہیں ، لہذا مجموعی طور پر ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں اور سی بنیاد پر اقتصادی معاملات میں بھی کمزور ہیں ، جب تعلیم نہیں ہے تو روزگا ر کے مواقع فراہم نہیں ہیں جس کی وجہ سے کہیں ٹھیلا لگانے پر لوگ مجبور ہیں تو کہیں چھوٹا موٹا کھوکھا چلانے پر اس پر بھی طرہ یہ کہ نفرتوں کا زہر اس بری طرح گھول دیا گیا ہے کہ ٹھیلے والوں کو یہ جان کر بعض علاقوں سے بھگا دیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں چھوٹی موٹی دکان چلانے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ، جناب نجیب صاحب نے بیان کیا کسی بھی قوم کے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے چار ستون ضروری ہیں ، تعلیم ، معیشت، کلچر، حفظان صحت ، مسلمانوں کے چاروں ہی پلر منہدم ہو چکے ہیں تو یہ بیچارے کیا کریں گے ؟ اس مقام پر جناب محمد صورت والا صاحب نے گفتگو کو روکتے ہوئے پوچھا جو کچھ ملک کے بارے میں جناب عاکف زیدی صاحب نے بتایا اور جو کچھ ملک میں مسلمانوں کی صورت حال کو لیکر آپ بتا رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے تو مستقبل بڑا خوفناک نظر آ رہا ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے اس بات کے جواب میں جناب نجیب الحسن زیدی صاحب نے کہا کہ دیکھیں ہمارے سامنے دو مستقبل ہیں ایک شاندار و تابناک دوسرا تاریک و اندھیر اب ہمارے ہاتھ میں ہے ہم کیا کرتے ہیں ہم اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے یوں ہی بیٹھے رہیں گے تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا واضح ہے لیکن اگر ہم آگے بڑھیں گے جدو جہد کریں گے ہیجان عمل کی آگ لیکر آگے بڑھیں گے تو سعی پیہم و عزم مسلسل سے سب کچھ ہم بدل سکتے ہیں کیونکہ ہمارا شاندار ماضی ہمارے سامنے ہیں ہم اپنے درخشان ماضی کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے تابناک مستقبل کو رقم کر سکتے ہیں ، اس مقام پر گفتگو کے رخ کو موڑتے ہوئے جناب محمد صورت والا نے جناب عاکف زیدی صاحب سے آئین کے اعتبار کے بارے میں سوال کیا تو عاکف زیدی صاحب نے جواب میں کہا کہ آئین ہمیں شہریت دیتا ہے ،ہمیں اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ جینے کی اجازت دیتا ہے ، ہمیں بنیادی حقوق دیتا ہے ہمارے یہاں کوئی کسی پر فوقیت نہیں رکھتا یہ آئین سے ہمیں حق ملتا ہے ،آئین ہی ہمیں حق احتجاج دیتا ہے اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کا حق بھی آئین ہی ہمیں دیتا ہے اور یہ معتبر ہے اس لئے کہ ملک کا بنیادی دستور ہے ، آئین اتنا ہی معتبر ہے کہ چاہے ملک کا صدر جمہوریہ ہو یا وزیر اعظم یہ آئین ہی ہے جو اعتبار بخشنے والا ہے لہذا کچھ لوگ اسی لئے آئین سے خوف کھاتے ہیں اور ڈرتے ہیں کیونکہ آئیں انکے اختیارات کو محدود کرتا ہے ۔

اس موقع پر جناب محمد صورت والا نے آئین کے اندر پائے جانے والے مفاہیم کے سلسلہ سے جناب نجیب الحسن زیدی صاحب سے سوال کیا کہ ہمارے آئین کے اہم مفاہیم کیا ہیں جس کے جواب میں انہوں نے کہا ،۱۔ آزادی ۲۔ مساوات ۳۔ عدل و انصاف۔۴۔ بھائی چارگی و اخوت یہ وہ مفاہیم ہیں جو آئین کے اندر موجود ہیں جنکے حصول کے لئے اتنا بڑا ضخیم بنیادی دستور العمل بنایاگیا جو البانیہ کے بعد ظاہرا دنیا کا سب سے بڑا اور ضخیم دستور ہے ۔اس مقام پرجناب محمد صورت والا نے سوال کیا یہ سارے مفاہیم تو اپنی جگہ ہیں لیکن آج تک ایسا کچھ ہو نہیں پایا کہ جو کچھ آئین میں ہو اسے حاصل بھی کیا جا سکے ملک کی جو صورت حال ہے تو اسے دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ آئین کا تو نقص نہیں کہ ملک کی یہ درگت بنی ہوئی ہے تو اسکے جواب میں محترم مہمان نے کہا آئین ایک راستہ ضرور دکھاتا ہے لیکن منزل پر ہمیں خود پہنچنا ہے آپ ہر کام تو آئین سے نہیں لے سکتے ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے آئین میں نقص نہ ہو ممکن ہے نقائص بھی ہوں لیکن موجودہ صورت میں ایک بہترین آئین ہے جس میں ہمارے حقوق کی ضمانت لی گئی ہے اور اس آئین میں جس طرح عد ل و انصاف کے نفاذ کی بات کی گئی ہے یہ تو وہی ہے جسے قرآن نے مقصد انبیاء کے طور پر بیان کیا ہے اسکا مطلب ہے چاہے آئین بنانے والے قرآن پر ایمان نہ رکھتے ہوں لیکن کچھ آئین ساز اسمبلی میں ایسی شخصیتیں ضرور تھیں جنکی نظر قرآنی مفاہیم پر تھی اسی لئے آئین ہند کے اندر بھی ہم ان چیزوں کو پاتے ہیں جنکی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے ، رہی بات آئین کی ناکامی کی تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں مسلمانوں کی دنیا بھر میں جو درگت بنی ہوئی ہے اسکا ذمہ دار قرآن ہے اسکا ذمہ دار مسلمانوں کا رسول ہے ہرگز ہم یہ نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ سب کو پتہ ہے یہ سب کچھ مسلمانوں کی اپنی بنائی گئی درگت ہے اسی طرح ہندوستان میں جو مسائل ہیں وہ آئین کی عدم افادیت پر نہیں پلٹتے بلکہ آئین کے عدم نفاذ کی طرف پلٹتے ہیں ۔

اس مقام پر گفتگو کے میزبان جناب محمد صورت والا غداری اور وفاداری کے معیار کو بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ حقیقت میں غدار وہ ہے جو آئین کا غدار ہے اور وفادار وہ ہے جو آئین کا وفادار ہے اسی ضمن میں جناب نجیب الحسن صاحب نے اس بات کو بیان کیا کہ آج ہمیں مسلمانوں کے لئے کچھ لوگ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ آئین کو نہیں مانتے یہ وہ لوگ ہیں جو ۷۵ سال سے ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں جب کہ کہنے والے غور تو کریں مسلمانوں ہی نے شروع سے اب تک آئین کا تحفظ کیا ہے اور کر رہے ہیں جناب سید نجیب الحسن زیدی صاحب نے اس مقام پر ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہا ۱۹۱۸ ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد ۲۰ کروڑ تھی اب یقینا اس سے زیادہ ہوگی اب آپ سوچیں مسلمانوں کے بارے میں یہ جو جڑ کاٹنے کی بات کی جا رہی ہے تو جڑ کاٹنے کا کام ۲۰ کروڑ چوہوں کو دے دیا جائے تو کچھ ہی دن میں انکا مشن پورا ہو جائے گا یہ کیسے ۲۰ کروڑ مسلمان جڑ کاٹ رہے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے اور مسلسل ملک ترقی بھی کر رہا ہے کیا انکے پاس کدال اور پھاوڑے بیلچے سب پلاسٹک کے ہیں یا پھر یہ جڑیں ہی کٹائی پروف ہیں جن پر کچھ اثر نہیں ہو رہا ہے ؟ یقینا ایسا کچھ نہیں ہے جہاں جڑوں کی بات ہے تو دنیا یاد رکھیں مسلمان جڑیں کاٹنے والا نہیں ہے بلکہ اس نے تو نیو ڈالی ہے مسلمان تو آزادی کی بنیاد ڈالنے والا ہے یہ سب منفی پروپیگنڈہ ہے جو مسلمانوں کو لیکر وہ لوگ کر رہے ہیں جو خود ہندوستان کی جڑوں میں نفرتوں کا زہر ڈال رہے ہیں ۔
اس مقام پر جناب محمد صورت والا نے آخری سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ ہم اپنے ملک کے لئے کیا کر سکتے ہیں جس کے جواب میں جناب نجیب الحسن زیدی صاحب نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں اپنی تاریخ سے واقفیت کی ضرورت ہے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے ہم نے کیا خدمات کی ہیں وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو اپنی تاریخ کو فراموش کر دیتی ہیں لہذا ہمیں تاریخ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ ہم نے تاریخ سے ہندوستان کو آشنا کیا ہے اس بات کی دلیل دیتے ہوئے محترم مہمان نے کہا کہ ڈاکٹر گسٹاولی بان نے اپنی کتاب تمدن ہند میں بیان کیا ہے کہ" قدیم ہند کی کوئی تاریخ ہی نہیں تھی اور ہندوستان کا تاریخی زمانہ فی الواقع مسلمانوں کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور ہندوستان کے پہلے مورخ بھی مسلمان تھے "

نہ صرف تاریخ بلکہ صنعت و حرفت سے لیکر کاغذ و کپڑوں کا کاروبار یا ہندوستان کی پہلی بحریہ کی تشکیل اور بیرونی دنیا سے ہندوستان کا رابطہ ہو ہر ایک ترقی کے مرحلے پر ہمیں مسلمانوں کی خدمات نظر آتی ہیں لہذا ہمارے لئے پہلے مرحلے میں اپنی تاریخ سے آشنائی اور اس سے دوسروں کو مطلع کرنا ضروری ہے اس کے بعد اپنے سرمایہ پر توجہ رکھتے ہوئے بڑا دل رکھنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ بڑا کام وہی لوگ کر پاتے ہیں جو بڑ دل رکھتے ہیں ہمیں محض خود کو نجات نہیں دینا ہے بلکہ ہم تو اس مہدی عج دوران کا انتظار کر رہے ہیں جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دےگا ہمیں خود کو نجات یافتہ نہیں بنانا ہے ہمیں تو دوسروں کا ہاتھ بھی تھامنا ہے لیکن یہ ہم اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہمارا اپنا ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں نہ ہو اللہ کی ذات پر بھروسہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور امید کے ساتھ آگے بڑھنے کے ذریعہ ہم ایک تابناک مستقبل پھر سے رقم کر سکتے ہیں انشاء اللہ۔

اس گفتگو کے بعد جناب محمد صورت والا نے گفتگو کے ماحصل کو بیان کرتے ہوئے آئندہ بھی اس قسم کے سیشن رکھنے کی بات کی اور پروگرام کو ناظم جلسہ کے سپر د کر دیا ناظم جلسہ جناب امان عباس صاحب نے مشہد مقدس سے آئے مہمان شاعر جناب ندیم سرسوی صاحب کو دعوت کلام دی جنہوں نے ہمیشہ کی طرح بہترین انداز میں اپنے منظوم کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔

بعدہ مہتممین کی جانب سے بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا پروگرام ترتیب دیا گیا تھا جس میں ہندوستان کے جغرافیہ و شخصیتوں کے بارے میں کچھ سوالات کئے گئے جنکے جواب پر بچوں کو انعامات سے نوازا گیا ، جواب دیکر انعام حاصل کرنے والے بچوں میں محمد دانیال، محمد رضا اصغر، علی مہدی جعفری، محد حسن سورت والا، محمد مہدی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ انعامات کی تقیسم کے بعد حجۃ الاسلام و المسلمین جناب کاشف رضا صاحب کے ساتھ حاضرین نے مل کر دعائے فرج پڑھی اس طرح اس باوقار تقریب کا اختتام ہوا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .