۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/جب ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا ہم کہاں تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں اور اسی بنیاد پر ہمارے اندر مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوگا ،اور ساتھ ہی ساتھ ہم اپنے آپ کو احساس کمتری سے بھی نکالنے میں کامیاب ہوں گے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے، ہندوستان کے برجستہ عالم دین و اسلامک اسکالر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید نجیب الحسن زیدی نے ہندوستان کے موجودہ حالات اور ملک کی تعمیر میں مسلمانوں کے کردار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملک و قوم کے حالات جس سمت میں جا رہے ہیں  انہیں دیکھتے ہوئے ہم سب پر لازم ہے  وطن عزیز کی تعمیر میں  اپنے کردار سے کو اہل وطن کے سامنے پیش کریں  بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ہم سے ناواقف ہیں ،منفی پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر ہمیں ملک سے لا تعلق سمجھتے ہیں۔ ہماری ملک کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کو نہیں جانتے ،اور یہاں بات محض ناواقفیت کی نہیں ہے بلکہ مسلسل ایک ایسی  فکر بھی  کام کر رہی ہے جو ہماری تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کررہی ہے ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک قوم کی پوری تاریخ ، اسکے کارناموں اسکی تہذیب  کو نہ صرف منحرف ا نداز میں پیش کیا جا رہا ہے بلکہ  جہاں قربانیوں کا ذکر ہے وہاں جان بوجھ کر اسکی قربانیوںکو  نظر انداز کیا جا رہا ہے ، ایک قوم کی علمی و اقتصادی خدمات  کا باقاعدہ انکار کرنے کا رجحان پیدا ہو چلا ہے۔

انہوں نے تاریخ کو منحرف کرنے کی کوشش اور ہماری ذمہ داری پر اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تاریخ کو اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گویا مسلمانوں کی حکومت کا دور  سامراجی دور تھا یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی حکومت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حکومت کو بھی سامراجی و بیرونی حکومت کے طور پر پہچنوانے کی کوشش کی جا رہی ہے  اور بالکل اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے  ہم نے ملک کی تعمیر میں کوئی حصہ ہی نہ لیا ہو  کوئی ایسا کام ہی نہ کیا ہو جس پر ہم فخر کر سکیں ،آزادی کی جنگ میں ہمارا کردار ہی نہ ہو  لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے ان پہلووں کو لوگوں کے سامنے لیکر آئیں جن سے ہمارے درخشان ماضی کا پتہ چلتا ہو جس سے ہماری قربانیوں کا پتہ چلے ۔

مولانا نے امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کہاں تھے اور اب کہاں ہیں: جب ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا ہم کہاں تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں اور اسی بنیاد پر ہمارے اندر مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوگا ،اور ساتھ ہی ساتھ ہم اپنے آپ کو احساس کمتری سے بھی نکالنے میں کامیاب ہوں گے ۔
 

مزید اپنی گفتگو میں ملک کے حوالے سے کہا کہ ہم نے ملک کو کیا دیا: ہم نے جو کچھ ملک کو دیا ہے اسکی فہرست طولانی ہے  جسے اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ و اپنی خدمات کا مطالعہ کریں  اور بوقت ضرورت جب ہم پر الزام تراشی ہو تو لازم ہے کہ ہم ان لوگوں کو آئینہ دکھا سکیں جنہوں نے نفرت کی سیاست اختیار کرکے ملک کی سالمیت کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے  لہذا ضروری ہے ان اہم نکات کو بیان کیا جائے جنکے سبب لوگوں کو پتہ چل سکے کہ معاشرتی طور پر ہم نے ہندوستان سماج کو مستحکم کرنے میں کیا رول ادا کیا ہے مثلا یہی ایک اہم نکتہ لوگوں تک پہنچ جائے تو بہت اہم ہے کہ جب پورا ملک چھوا چھوت کی وبا سے جوجھ رہا تھا تو یہ مسلمان ہی تھے جنہوں مساوات و بھائی چارہ کی فضا کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ملک کو چھوا چھوت اور طبقاتی اونچ نیچ سے نجات دلانے کی نتیجہ بخش کوشش کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔

مولانا زیدی نے کہا کہ طبقاتی نظام کی خطرناک جونک سے نجات دلانا غیر معمولی اقدام : غور کریں تو واضح ہوگا ہم نے ہندوستانی معاشرے کا خون چوسنے والی کس خطرناک جونک پر تعلیمات اسلامی کا نمک چھڑک کر اسے ہندوستانی معاشرے کے پیکر سے الگ کیا ہے ایسی جونک جو آج بھی جہاں جہاں ہندوستان سماج کے پیکر میں چپکی ہے وہاں معاشرہ بےکل و جاں بلب ہے شک نہیں کہ یہ طبقاتی اونچ نیچ گرچہ اب بھی پائی جا رہی ہے لیکن اسے کم کرنے میں ہمارا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے جو ناقابل فراموش ہے 
اور یہ بات آج کے ہندوستان کے لئے بہت ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو مسلمانوں نے  بھید بھاو کے ختم کرنے میں کیا رول ادا کیا ہے اور کتنا مثبت کردار ادا کیا ہے جسکے سبب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکا ہے ۔
جو لوگ جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے  جنہوں نے پورے ہندوستان کو طبقاتی نظام کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا ان سے عام لوگوں کو نجات دلانے والے مسلمان نہیں تو کون تھے ؟ بے شک بلا تفریق رنگ و نسل و ذات پات لوگوں کو مل جل کر آگے بڑھنے کا حوصلہ  دینے والے طبقاتی نظام کی دیواروں کو گرانے والے مسلمان ہی ہیں یہ وہ چیز ہے جس سے ہم پسماندہ قوموں اور مستضعفین کو بھی اپنے ساتھ شامل کر سکتے ہیں  اور مل جل کر موجودہ طبقاتی شگاف کے خلاف آواز احتجاج بلند کر سکتے ہیں ۔
 

موصوف نے کہا کہ ہمیں اپنی خدمات کو اجاگر کرنا اور مستقبل کی منصوبہ بندی نہایت اہم: آج ہمارے ملک میں جو ہر طرف مسموم فضا چھائی ہوئی ہے اور بری طرح ہمیں چو طرفہ نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم بہت سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کریں کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہوگا؟۔  مستقبل کے خطوط کی ترسیم کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ  جتنا ہو سکے میڈیا کے ذریعہ قلم و بیان کے ذریعہ اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں کہ ہم نے مذہبی و نسلی بھید بھاو سے کس طرح اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا جہاں سب مل جل کر ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں اور طبقاتی فاصلوں کی دیواریں ملک کی ترقی میں آڑے نہ آئیں ۔
 اگر ہمارے خلاف زہر بھرنے والی طاقتیں صرف اس چیز کو جان لیں کہ ہم نے نسلی و مذہبی و قومی ہماہنگی میں ایک لافانی کردار ادا کیا ہے تو انہیں خود اندازہ ہو گا کہ  اجتماعی و معاشرتی زندگی میں جس طاقت کو وہ لوگ ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں  اگر مسلمان اس ملک میں نہ آئے ہوتے تو ہرگز وہ اس گندے گٹر سے نہیں نکل سکتے ہیں  جہاں اس وقت چھوا چھوت کے تعفن میں پوری قوم کو مبتلا کئے انسانی صلاحیتوں گا گلا گھونٹ رہے تھے۔

چھوت چھات کی ایسی بیماری اس ملک کو لاحق تھی کہ قومیت کا تصور ہی مشکل ہو چکا تھا، ہندوستان کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ رہی کہ مسلمانوں نے اجتماعی زندگی کا شعور دیا چونکہ اسلام کی نظر میں نہ طبقاتی نظام کی کوئی حیثیت ہے نہ نسلی و قومی برتری کا تصور، اس دور میں جب ہندو مذہب کا طبقاتی نظام دبے کچلے لوگوں کو مزید دبا رہا تھا مسلمانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ  کوئی شخص پیدائشی طور پر نہ تو ناپاک ہوتا ہے کہ اسے دھتکار دیا جائے اور نہ ہی جاہل ہوتا ہے کہ اسے علم حاصل کرنے کاحق ہی نہ ہو اور نہ ہی خاص پیشے خاص لوگوں کے لئے ہوتے ہیں، بلکہ ایک ساتھ سب ایک جگہ بیٹھ بھی سکتے ہیں کھا بھی سکتے ہیں ، امیر و غریب پہلو بہ پہلو بیٹھ بھی سکتے ہیں کام بھی کر سکتے ہیں ۔

مولانا نجیب الحسن زیدی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے طبقاتی نظام کے لئے یہ مساوات کا پیغام کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ وہ چیز ہے جسکا اعتراف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے بھی یوں کیا ہے''  مسلمانوں کے عملی مساوات کے نظام نے ہندوں کے ذہنوں پر بہت گہرا رنگ چھوڑا خاص طور پر وہ ہندو جو اونچ نیچ کا شکار تھے اور برابری کے حقوق سے محروم تھے اسلام کے مساوات کے نظام سے بہت متاثر ہوئے'' {جواہر لعل  تلاش ہند ، ص ۵۲۶-۵۲۵ Discoery off india }

آخر میں کہا کہ ہندوستان کی موجودہ فضا میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بنیادی مسئلہ کی  طرف لوگوں کی توجہات کو مبذول کرائیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے حقوق کی بازیابی کی جد و جہد کو بھی جاری رکھیں۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .