۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
اجلاس قم

حوزہ/قم میں منعقد اجلاس کے دوران ظلم، بربریت اور آر اس اس کے خلاف نعروں سے ہال گونجتا رہا۔ ہال میں ایسے نعرے گونج رہے تھے جن میں ہندوستان میں مسلمانوں کے تعمیری کردار کو بیان کیا گیا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ۲۵ جنوری  ۲۰۲۰ء کو  ایران کے شہر مقدس قم میں یوم جمہوریہ کی مناسبت سے اور وطن عزیز ہندوستان میں جاری Anti NRC/CAA مظاہروں کی حمایت کے لئے حوزہ علمیہ قم کے علماء اور طلاب کی جانب سے ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔  اس جلسے میں تقریبا ۵۰۰ افراد نے شرکت کی۔ جس میں خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی۔ 

جلسے کا آغاز مولانا کرار حسین نےکلام پاک کی تلاوت سے کیا۔ جلسے کے ناظم مولانا حیدرعباس زیدی صاحب نے جلسے کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم یوم جمہوریہ کی مناسبت سے معنعقد ہونےوالے اس پروگرام میں وطن عزیز میں ان افراد کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں جواعلی اقدار کو نقصان پہنچانے والے قوانین کے خلاف اپنا  آئینی حق استعمال کرتے ہوئے  صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔  آپ نے ہر تحریک میں شعراء کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے محترم شاعر جناب عامر نوگانوی صاحب کو دعوت سخن دی۔ آپ نے ساحر لدھیانوی صاحب کی معروف نظم ”وہ صبح کبھی تو آئے گی“ کو اپنی پراثر آواز میں پیش کیا۔

ان کے بعد جلسے کے دوسرے ناظم  مولانا امان حيدر  صاحب نے مولانا نجیب الحسن زیدی صاحب کو ”ہندوستان کی تعمیر میں مسلمانوں کا کردار“ کے موضوع پر تقریر کرنے کی دعوت دی۔ نجیب الحسن صاحب نے کہا کہ آج جبکہ ملک کی سالمیت کو خطرہ ہے تو مسلمان آگے بڑھ کر احتجاج کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی ملک کی تعمیر میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ اس کے برخلاف آج جو لوگ مسلمانوں کی ملک سے وفاداری پر سوال اٹھا رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ ملک کو لوٹنے والے انگریزوں کا ساتھ دیا ہے۔  مسلمانوں نے ہندوستان میں انتہائی بلند تصورحیات اور اعلی انسانی اقدار دیں۔ وہ ہندوستان جہاں شودروں اور ورنا سسٹم سے باہر کے لوگوں کو انتہائی پست مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے ایسے ماحول میں مساوات کا درس دیا۔ جس کا اثر کبیرداس کے دوہوں اور تکارام وغیرہ کے منظوم کلام میں ملتا ہے۔ علم تاریخ مسلمانوں نے دیا اور وہی کاغذ کی صنعت چین سے لائے تھے۔ ملک کی آزادی میں بھی ہم نے بے مثال کردار ادا کیا ہے۔  اور آج بھی ہم یہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ 

ہال میں ایسے نعرے گونج رہے تھے جن میں ہندوستان میں مسلمانوں کے تعمیری کردار کو بیان کیا گیا تھا۔


اس کے بعد  محترم امان حيدر صاحب نے  ہندوستان کی آزادی میں علماء کے کردار پر روشنی ڈالنے کے لیے مولانا محمد حسین سورت والا صاحب کو ”ہندوراشٹریہ یا ہندوستان“ کے موضوع پر دعوت سخن دی۔  آپ نے اپنی گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ آر اس اس کے صدر موہن بھاگوت نے ابھی کچھ دنوں پہلے کہاہے کہ ہم ہر چیز پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں لیکن  ہندوراشٹریہ پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ ہم کو یہ سمجھنے کی خواہش ہے کہ ہندوراشٹریہ کیا ہے؟ ہم کو کوئی ایسی کتاب نہیں ملتی ہے جو ہندوراشٹریہ کے بارے میں لکھی گئی ہو۔ اس لئے ہم کو دیکھنا ہوگا کہ جو لوگ ہندوراشٹریہ کی بات کرتے ہیں جب ان کو اقتدار ملتا ہے وہ کیا کرتے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدر میں آنے کے بعد مسجد گرائی جاتی ہے، لوگوں کی لنچنگ کی جاتی ہے، بچیوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے اور اس سے  زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مجرموں کی حمایت کی جاتی ہے، بی جے پی کے عہدیدار مجرموں کو مالا پہناتے ہیں، ان کی حمایت میں پیسے اکٹھا کئے جاتے ہیں۔ یہ ہندوراشٹریہ کا ڈیمو ہے۔ دوسری جانب اقتصاد، جمہوریت، تعلیم، ہیلتھ اور دوسرے میدانوں میں پچھڑتا جارہا ہے۔ وہ ہندوستان جس نے NAB  نان الائن موومنٹ شروع کیا تھا اور عالمی سیاست میں اس کی آواز کا وزن ہوتا تھا، جس کی حمایت یا مخالفت کی بڑی طاقتوں کی نظر میں بھی اہمیت تھی وہ اب خود اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ یہ کردار ادا نہیں کرپارہا ہے۔ ایران کی ہندوستان سے اتنی قربت کے باوجود امریکہ اور ایران سے جنگ کے ماحول کے درمیان امریکہ نے پاکستان کے وزیراعظم سے تو بات کی لیکن ہندوستان سے بات کرنے کو کوئی اہمیت نہیں دی یعنی وہ اپنے علاقے میں ہی اہمیت کھو چکا ہے۔ اگر یہی ہندوراشٹریہ ہے تو ہم کیا اسے انسانی اقدار پر یقین رکھنے والا کوئی ہندو بھی  قبول نہیں کرے گا۔ اس لئے ہم ایسے ہندوستان کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس میں انسانی اقدار کا بول بالا ہو، انسانیت ہو اور عقل اور فطری اصولوں کا بول بالا ہو ۔
تقریر کے دوران ظلم، بربریت اور آر اس اس کے خلاف نعروں سے ہال گونجتا رہا۔ 
امان عباس صاحب نے کہا کہ یہ وہ آراس اس ہے جس نے ۵۲ سال تک اپنے ہیڈکوارٹر پر ترنگا نہیں پھیلایا بلکہ اس کی جگہ بھگوا جھنڈا پھیلایا۔ 
اس کے بعدمشہد مقدس سے تشریف لائے  ندیم سروی صاحب نے ”ہم ہندوستانی مسلم ہیں ہم ہندوستان بچائیں گے“ کے عنوان سے اپنا خوبصورت کلام پیش کیا۔ 
اس کے بعد فیض احمد فیض کی معروف نظم ”ہم دیکھیں گے“ کی خوبصورت کلپ پیش کی گئی۔


جلسے کے آخری مقرر مولانا عاکف زیدی صاحب نے ”ہمارا دین اور تحفظ آئین“ کے موضوع پر  تقریر کی۔

انھوں نے کہا کہ ہم خداوندعالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہم ایسے دین سے منسلک کیا ہے جو انسانوں کو انسانیت کی اعلی ترین منازل تک پہنچا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو خدا نے انسانیت کی قافلہ سالاری کی ذمہ داری سونپی ہے اس لئے ہم  کو تمام انسانوں اور بالخصوص کمزور انسانوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہمارے  نبی(ص) نے اسی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے بے انتہا تکلیفیں برداشت کیں اور اسی سیدالشہداء نے اپنی اور اپنے اصحاب و انصار کی قربانی دی۔  مسلمانوں کے علمی ذخیرے نےیوروپ کو قرون وسطی کی تاریکی سے نکالا۔ ہندوستان میں برہمنیت کی گرفت کو کسی حد تک کمزور کیا اس لئے بھکتی کی تحریک پنپ سکی۔ آج  عالمی پیمانے پر دزدان قافلہ انسانیت کے سردار یعنی امریکہ اور اسرائیل سے ایران اور امت مسلمہ مقابلہ کررہی ہے اور اسی مقابلے میں قاسم سلیمانی جیسے شہید کا پاک خون بہایا جاتا ہے۔ آج حزب اللہ کے جوان اور ایوان میں ان کے وزیر وہاں کے ایسے آئین کی حفاظت کی حلف لیتے ہیں اور حفاظت کرتے ہیں جو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ عرب قومیت کی بنیاد پر ہے۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہی وہ آئین ہے جو ملک کی سالمیت کو بچا سکتا ہے۔ یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے۔  ہمارے ملک کے ہندو اور مسلمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہی وہ آئین ہے جو ہندوستان کو آر اس اس کے ہندوراشٹریہ سے اور ان کے ناپاک ارادوں کی تکمیل سے بچا سکتا ہے۔ اس آئین میں عدل و انصاف، آزادی  اور آزادی بیان وغیرہ پر تاکید کی گئی ہے۔ یہ اعلی انسانی اقدار ہیں اور اسلام وہ دین ہے جو ان اصولوں کی بہترین تفسیر پیش کرتا ہے۔۔
ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود آئین کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کی وجہ سے آئین کی حفاظت کر رہے ہیں۔
اس آئین کی تمہید بہت اہم ہے جس کی ابھی ہم قرائت کریں گے۔ “
اس  کے بعد حاضرین جلسہ نے مل کر آئین کی تمہید پڑھی اور میمورنڈم پڑھنے کے بعد جلسہ اپنے اختتام تک پہنچا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .