۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
قوم میں بڑھتے طلاق کے موضوع پر نئی ممبئی میں دوسرا جلسہ منعقد

حوزہ/ مقررین نے کہا کہ ہمارے معاشرہ میں بیجا طلاق کی وجہ آپسی تفاہم کا نہ ہونا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کے اختلاف کی صورت میں اگر ان کو منطقی انداز سے سمجھایا جائے تو ان کے درمیان اختلافات ختم ہو جاتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بیت الحسین(ع)، سیووڈ، نئی ممبئی میں ”قوم میں شرح طلاق میں اضافہ کے اسباب و نتائج“ کے عنوان سے دوسرے جلسے کا انعقاد ہوا جس میں مختلف علماء و دانشوران قوم نے اظہار خیال کیا اور قوم میں ہو رہے بےوجہ طلاق کی روک تھام کے لیے اپنی قیمتی تجاویز سے آگاہ کیا اس اہم جلسے کا انعقاد رئیل ہیومنٹی سرویسز(.R.H.S) کی طرف سے ہوا جس میں انجمن ثار اللہ ممبئی، والفجر ایجوکیشنل اینڈ ولفیئر ٹرسٹ اور نالج سٹی کلاسس (NCC) کا بھر پور تعاون رہا۔ جلسے کی صدارت کے فرائض حجت الاسلام والمسلمین عالی جناب مولانا سید فرمان موسوی صاحب نے کی اور نظامت کے فرائض رئیل ہیومنٹی سرویسز کے روح رواں ڈاکٹر ممتاز حیدر ”پرنس رضوی“ نے انجام دیئے۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید توثیق باقری صاحب نے کہا کہ ہمارے معاشرہ میں بیجا طلاق کی وجہ آپسی تفاہم کا نہ ہونا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کے اختلاف کی صورت میں اگر ان کو منطقی انداز سے سمجھایا جائے تو ان کے درمیان اختلافات ختم ہو جاتے ہیں۔ موصوف نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دنوں پہلے ایک شادی شدہ جوڑے میں اختلاف ہو گیا تھا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی تھی اور مسئلے کے حل کے لئے دونوں میں سے کوئی بھی گفت و شنید کے لئے تیار نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ اور زیادہ پیچیدہ ہوگیا تھا اور نوبت طلاق تک آ پہنچی تھی لہذا جب میں نے دونوں سے بات کی اور انہوں نے بھی تفاہم اور بات چیت کا راستہ اختیار کیا تو تمام‌ گلے شکوے دور ہوگئے اور آج کی تاریخ میں وہ ایک ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

مولانا سید علی عباس صاحب نے بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ آج کل اگر میاں بیوی میں معمولی اختلاف بھی ہوتا ہے تو وہ فورا تھانہ پولس میں پہنچ جاتے اور عدالتوں میں مقدمات قائم کر دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رشتوں میں اور زیادہ دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر عدالتوں میں وقت گنوانے کے ساتھ ساتھ دونوں فریق کو اپنی اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور پھر پیسے کی بربادی کا مسئلہ اپنی جگہ ہے۔

موصوف نے مزید کہا کہ اگر لوگ ان مسائل میں پہلے سے اپنے علماء سے رجوع کر لیں تو خاندان بھی ٹوٹنے سے بچ جائیگا اور ان کی عزت بھی محفوظ رہے گی۔

وہیں مولانا سید عابد رضا صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان جلسوں کا مقصد قوم کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شرعی ذمہ داریوں کا احساس دلانا بھی ہے کیوں کہ جب تک عام لوگوں تک یہ پیغام نہیں پہونچے گا اس وقت تک قومی مسائل کا حال”نقار خانے میں طوطی کی آواز“ جیسا ہوگا کوئی بھی تحریک عام لوگوں کی وجہ سے ہی کامیاب ہوتی ہے۔

اس جلسے کے میزبان اور اس علاقے میں فعال عالم دین مولانا محمد یوسف خان صاحب نے کہا کہ الحمدللہ یہاں کے مؤمنین نے اس تحریک کو ہاتھوں ہاتھ لے کر اپنی بیداری کا ثبوت دیا اور ان شاء اللہ اگلے مرحلے میں طلاق جیسے مسائل کے حل و فصل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

مولانا سید محمد حیدر اصفہانی صاحب نے بھی اپنی تجاویز کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو شادی سے پہلے اور بعد میں ان کی ذمہ داریوں سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے تاکہ ابتدائی طور پر ہی اس خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔ انہوں مزید کہا کہ در اصل ہمارے یہاں شادی کا ہدف اور موٹیویشن ایسا ہوتا ہے جس سے ہمیشہ میاں بیوی کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ رہتا ہے ہمارے نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا کہ شادی بیاہ صرف اپنی جنسی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا مقدس عمل ہے جس میں نسل انسانی کی بقا کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت کا بہترین انتظام کرنا ہے تاکہ انسان کی خلقت کا مقصد پورا ہو سکے اور ہماری آئندہ ‌نسلیں بھی دین و شریعت کی وفادار بنی رہیں۔

مولانا دعبل اصغر صاحب نے بھی اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج ہم ہر میدان میں پچھڑتے جا رہے ہیں اور ہمارے پاس ایک بہترین نظام موجود ہے پھر بھی ہم اس سے فائدہ حاصل نہیں کر پاتے کیوں کہ ہم نے علماء اور دین کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ان کو اپنے میل و رغبت کے مطابق چلانا چاہتے ہیں جب کہ یہی ہمارے پیشوا اور رہبر ہیں جن کے پیچھے چل کر ہی ہم دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ صرف نکاح یا طلاق کا صیغہ پڑھنے کی حد تک ہی علماء سے رابطہ کیا جاتا ہے اور زندگی کے دوسرے اہم مسائل میں ان سے رائے مشورہ تک نہیں کیا جاتا نتیجتاً ہمارے مسائل کورٹ کچہریوں میں حل ہوتے ہیں جس میں سوائے ندامت اور نقصان کے کچھ نہیں ہے۔

سامعین میں سے اس علاقے کی معزز شخصیت غلام قنبر عرف ماموں نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا جب تک ہم علماء کو اپنا رہبر اور سرپرست تسیلم‌ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کل منبر پر آنے والے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ ہمارے عیوب و نقائص کی طرف سے ہمیں متوجہ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں قوم گمراہ ہوتی جارہی ہے۔ موصوف نے کہا کہ ایسا ماحول بنانے میں صرف صاحبان منبر ہی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں جو ایسے لوگوں کو اس منبر پر بٹھاتے ہیں‌۔

آخر میں اس جلسے کے صدر مولانا فرمان علی موسوی صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بہت سے اسلامک ملکوں میں کاؤنسلگ کا سسٹم لاگو ہے اور جب بھی طلاق جیسے مسائل سامنے آتے ہیں تو وہ کاؤنسل اپنا کام کرتی ہے جس کا فیصلہ وہاں کی عدالتوں میں بھی قبول کیا جاتا ہے اسی طرح ہم اپنی کمیونٹی میں بھی اس طرح کی پہل کر سکتے ہیں اور اختلافات کے حل و فصل کے لئے ایک کاؤنسل بنا سکتے ہیں اس کا آغاز ہم اسی علاقہ سے کر سکتے ہیں اس کے بعد اسے وسعت دیتے رہیں۔

آخر میں جلسے کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا گیا اور مؤمنین کے لئے دعائیں کی گئیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .