۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
تصاویر/ تجمع اعتراضی طلاب و روحانیون هندی در پی اهانت به ساحت مقدس پیامبر اسلام

حوزہ/ موجودہ انتخابات ہم سبھی کے لئے بہت حساس ہیں، لیکن جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ ان انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کو استعمال کرنے کے ساتھ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ابھی چند ہی دنوں قبل ہم نے ۲۶ جنوری کو ملک کے بنیادی آئین کے نفاذ کا جشن منایا اس پچھترویں سالگرہ میں ہم کہاں پر ہیں ؟   تاکے اپنے ووٹ کا ہم صحیح استعمال کر سکیں ،اور ان لوگوں کو کامیاب کریں جو ہمیں ۷۵ سال سے آگے لیکر جائیں پیچھے نہ لے جائیں ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بر صغیر کے ممتاز علماء و اسلامک اسکالرز حجت الاسلام و المسلمین مولانا سید نجیب الحسن زیدی نے کہا کہ ملک ہندوستان میں انتخابات کا تنور رزو بروز گرم سے گرم ہوتا جا رہا ہے پہلے دور کے انتخابات میں لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کو استعمال کرتے ہوئے ان امید واروں کی تقدیر اے وی ام مشینوں میں بند کر دی جو اپنے تمام تر وعدوں اور دعووں کے ساتھ عوام کے درمیان تھے، موجودہ انتخابات ہم سبھی کے لئے بہت حساس ہیں ، لیکن جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ ان انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کو استعمال کرنے کے ساتھ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ابھی چند ہی دنوں قبل ہم نے ۲۶ جنوری کو ملک کے بنیادی آئین کے نفاذ کا جشن منایا اس پچھترویں سالگرہ میں ہم کہاں پر ہیں ؟ تاکے اپنے ووٹ کا ہم صحیح استعمال کر سکیں ،اور ان لوگوں کو کامیاب کریں جو ہمیں ۷۵ سال سے آگے لیکر جائیں پیچھے نہ لے جائیں ۔

اس بار ہم نے جن حالات میں اپنے ملک میں بنیادی دستور العمل کے نفاذ کی خوشی منائی ، اس سے ہم سب خوب باخبر ہیں کہ کیا کچھ ہوا اس بار جب ۲۶ جنوری کو ہم نے ملک میں جمہوریت کی ۷۵ ویں سالگرہ منائی تو جو کچھ تنازعات ہمارے سامنے ہوئے یقینا ہم انہیں نہیں بھولے ہوں گے یوں تو یہ پچھتریوں آزادی کی سالگرہ گزشتہ چند برسوں کی طرح تنازعات کا شکار رہی لیکن اس بارمعاملہ کچھ زیادہ ہی گرم رہا ، چاہے وہ اندراگاندھی جی کے ذریعہ لعل قلعے پر جلائی جانے والی ہندوستانی شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مشعل کا ہٹایا جانا ہو یا پھر کچھ خاص مقامات کی جھانکیوں کو ۲۶ جنوری کے دہلی میں ہونے والے قومی پروگرام میں شامل نہ کرنا ہو ، یہاں پر مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں اپنی باتیں کہیں کسی نے دفاع میں دلائل دئے تو کسی نے کسی اور انداز میں جو چیز یہاں پر توجہ کے لائق ہے وہ اس ترانے کو ہٹایا جانا ہے جو گاندھی جی کا پسندیدہ تھا ان سب چیزوں پر بھی بات ہوئی وزیر اعظم کی جانب سے پہنی گئی خاص ٹوپی پر بھِی بات ہوئی لیکن اس پر کسی نے کوئی بات نہیں کی کہ ہم نے ان پچھتر سالوں میں کیا پایا ؟ اور ہمارا ملک اس وقت کہاں کھڑا ہوا ہے ۔
اس وقت ہم کہاں ہیں ؟

وہ قومیں جو اپنا محاسبہ نہیں کرتی ہمیشہ نقصان اٹھاتی ہیں ، یقینا ملکی پیمانے پر اگر ہم ایک قومی جشن منا رہے ہیں جس کی گھن گرج دنیا میں سنی جا سکتی ہے ، جسکو لیکر ہندوستان کے کونے کونے میں تیاریاں ہوتی ہیں ، اسکولوں سے لیکر مدارس تک ہر چگہ پرچم کشائی ہوتی ہے راشٹریہ گان گا کر لوگ ملک کے تئیں اپنی وفاداری و محبت کا اعلان کرتے ہیں ، ملک کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ،یقینا ایسے عظیم موقع پر اپنا احتساب بھی ضروری ہے کہ کم کل کہاں تھے آج کہاں پر ہیں ؟ تاکہ جو کوتاہیاں ہیں جو خامیاں ہیں ان سےکی بھرپائی ہو سکے جہاں تک یہ دیکھنے کی بات ہے کہ ہندوستانی ہونے کے اعتبار سے اس وقت ہم کہاں ہیں تو اس وقت اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں دو ہندوستان ہیں ایک وہ ہندوستان ہے جو زمین میں اور مٹی پر ہے اور ایک وہ ہے جو بادلوں پر سوار ہے، جسکی گھن گرج سنائی دیتی ہے جو سوشل میڈیا پر ہے ، جس میں بڑے بڑے دعوے ہیں بڑی بڑی باتیں ہیں ، سنہرے خواب ہیں لیکن جو ہندوستان زمین پر ہے اگر اسے دیکھا جائے تو ہم عجیب صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں ۔

بھوک سے مرتے بچے :
اگر ہم خیالوں کی اور افسانوں کی دنیا سے باہر آئیں تو ہمیں ملے گا جس ہندوستان میں ہم جی رہے ہیں وہاں کی ز مینی حقیت یہ ہے کہ یہاں روز ہی چند ہزار بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں چنانچہ ۳ہزار سے سات ہزار تک کی تعداد موت کی شرح کے طور پر بیان کی جاررہی ہے ،اور یہ معاملہ کسی خاص دن کا نہیں ہے روزانہ اتنی تعداد میں ماوں کی کوکھ اجڑ رہی ہیں روزانہ گھروں میں ماتم ہے یہ ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں کی پیداوار کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں اتنا اناج و غلہ ہے کہ اگر صحیح طور پر تقسیم کیا جائے تو کوئی گھر بھی بغیر غلے و اناج کے نہ ہو کیونکہ اتنی بڑی مقدار میں اناج گوداموں میں پڑا ہے کہ جسکا حساب نہیں ،اسی کرونا کی وبا کے دوران گوداموں میں پڑے اناج سے حکومت نے سنیٹائزر تک بنایا ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کو اناج کھانے کے لئے نہیں مل رہا ہے اور کہیں یہی اناج اتنی زیادہ مقدار میں ہے کہ اسے سڑا کر اس سے سنیٹائزر میں تبدیل کیا گیاہے جو اپنے آپ میں سوال ہے کہ ہم یہ ہماری پیشترفت ہے یا ہمارا انحطاط کہ ایک طرف تو لوگوں کے پاس کھانے کے لئے نہیں ہے دوسری طرف کھانے کو سنیٹائزر میں تبدیل کر کے اس پر فخر کیا جا رہا ہے کہ ہم نے اناج کا بھرپور استعمال کیا.

جب کہ تعلیم کے میدان میں سب واضح ہے کہ ہندوستان کتنا پچھڑا ہوا ہے پڑھ لکھ کر ہم کتنے بڑے جاہل ہیں موجودہ صورت حال کو دیکھیں تو واضح ہے کہ ہم کہاں ہیں ،ہمارا ملک کہاں ہے اب اسے سمجھنا ہے تو ذرا لاک ڈاون کے مرحلے کو دیکھیں ہمارے ملک میں جب لاک ڈاون ہوا تو دنیا کے کسی ملک میں وہ سب کچھ دیکھنے کو نہیں ملا جو ہم نے ہندوستان میں دیکھا ، بالکل اچانک اور اتنا سخت لاک ڈاون جس میں غریب طبقے کی مشکلات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ، وہ لوگ جنکی زندگی یومیہ آمدنی پر ہے ان سے کہا گیا کہ آپ ایک دو مہینہ گھر پر ہی رہیں باہر نہ نکلیں یہ کتنی عجیب بات ہے ،یہ لوگ کتنی طولانی مسافت تک پیدل چل کر اپنے گھروں تک پہنچے اور کتنے ہی لوگ راستے میں جا ں بحق ہو گئے ، کتنے پولیس کی لاٹھیوں کو نہ سہہ سکے اور انکا دم نکل گیا کتنے ٹرین سے کٹ کر مر گئے کتنے بھوکے پیاسے پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہوئے اپنے گھروں تک پہنچ سکے یہ سب کچھ اسی ملک میں ہوا جسکے بنیادی دستور کے نفاذ کا ہم نے ابھی جشن منایا ، کیا آزادی کی پچھترویں سالگرہ پر ہمیں ان سب چیزوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں جبکہ اس وقت ملک میں غربت کی بھکمری کی یہ حالت ہے کہ حالیہ سرکاری رپورٹوں کے مطابق ابھی جو بچے جوان ہو رہے ہیں انکے قد کی اوسط شرح گھٹ چکی ہے ، دنیا میں ہر نسل کا قد پچھلی نسل سے بہتر ہے لیکن ساری دنیا کے برخلاف ہندوستان میں قد کی اٹھان میں کمی آ رہی ہے نئی نسل کا قد ہندوستان میں پرانی نسل سے کم ہے یہ غذائیت کی کمی و بھوک و غربت کی ایک طرح کی نشاندہی ہے ۔ دوسری طرف جہاں مالداروں کی بات ہے تو ہندوستان کے جو دس سب سے زیادہ ارب پتی لوگ ہیں اگر انکی دولت ان سے لی لی جائے اور ان کے پاس ایک معمولی عزت مند زندگی کے لئے ضروری سہولتیں ہوں تو انکی دولت سے ۲۵ سال تک تمام ہندوستانی اپنی یونیورسٹی کے تعلیم کے تمام اخراجات اٹھا سکتے ہیں ، یعنی ۲۵ سال تک تعلیم کے میدان میں سرکاری بجٹ پورا ہو سکتا ہے ۔

یہ تو ملک کی صورت حال ہے آپ ملک میں مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں دیکھیں تو معاملات اور بھی خراب ہیں اگر جب ملک میں غربت عام ہے ملک میں جہالت کا دور دورا ہے ملک میں آج بھی لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو ظاہر ہے مسلمان بھی اسی ملک کا حصہ ہیں یہ سب مشکلات انہیں بھی در پیش ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان تو اور بھی زیادہ مسائل کا شکار ہیں کیونکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی شرح خواندگی دیگر تمام اقوام سے کمتر ہے حتی تعلیم کے میدان میں مسلمان دلتوں اور پچھڑوں سے بھی گئے گزرے ہیں ، تعلیم، صحت و سرکاری نوکریوں میں مسلمان دیگر ہندوستانی اقوام سے پیچھے ہیں حتی یہ جو تعلیم کے سلسلہ سے شور ہے کہ مسلمان اس لئے پیچھے ہیں کہ انکے بچے جدید تعلیم کے لئے نہیں جاتے اور مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو مدارس میں بھی کل ۴ فیصد بچے ہی پڑھتے ہیں تو اسکا جواب یہ نہیں ہے کہ ہم اس لئے پیچھے ہیں کہ مدارس میں ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں یہ تو چار فیصد ہی ہیں باقی کیا کررہے ہیں ، لہذا مجموعی طور پر ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں اور اسی بنیاد پر اقتصادی معاملات میں بھی کمزور ہیں ، جب تعلیم نہیں ہے تو روزگا ر کے مواقع فراہم نہیں ہیں جس کی وجہ سے کہیں ٹھیلا لگانے پر لوگ مجبور ہیں تو کہیں چھوٹا موٹا کھوکھا چلانے پر اس پر بھی طرہ یہ کہ نفرتوں کا زہر اس بری طرح گھول دیا گیا ہے کہ ٹھیلے والوں کو یہ جان کر بعض علاقوں سے بھگا دیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں چھوٹی موٹی دکان چلانے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ، کسی بھی قوم کے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے چار ستون ضروری ہیں ، تعلیم ، معیشت، کلچر، حفظان صحت ، مسلمانوں کے چاروں ہی پلر منہدم ہو چکے ہیں تو یہ بیچارے کیا کریں گے ؟ البتہ یہاں پر ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ٹھیک ہے آنے والا کل جو ہماری صورت حال ہے اسے دیکھ کر بظاہر بہت ہی خوفناک نظر آ رہا ہے لیکن ہم اگر غور کریں تو پائیں گے کہ ہمارے سامنے دو مستقبل ہیں ایک شاندار و تابناک دوسرا تاریک و اندھیر اب ہمارے ہاتھ میں ہے ہم کیا کرتے ہیں ہم اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے یوں ہی بیٹھے رہیں گے تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا واضح ہے لیکن اگر ہم آگے بڑھیں گے جدو جہد کریں گے ہیجان عمل کی آگ لیکر آگے بڑھیں گے تو ہر طرف اجالا ہوگا تو سعی پیہم و عزم مسلسل سے سب کچھ ہم بدل سکتے ہیں کیونکہ ہمارا شاندار ماضی ہمارے سامنے ہیں ہم اپنے درخشان ماضی کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے تابناک مستقبل کو رقم کر سکتے ہیں۔

اور یہ سب کچھ ہم آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے کر سکتے ہیں آئین ہمیں شہریت دیتا ہے ،ہمیں اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ جینے کی اجازت دیتا ہے ، ہمیں بنیادی حقوق دیتا ہے ہمارے یہاں کوئی کسی پر فوقیت نہیں رکھتا یہ آئین سے ہمیں حق ملتا ہے ،آئین ہی ہمیں حق احتجاج دیتا ہے اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کا حق بھی آئین ہی ہمیں دیتا ہے اور یہ معتبر ہے اس لئے کہ ملک کا بنیادی دستور ہے ، آئین اتنا ہی معتبر ہے کہ چاہے ملک کا صدر جمہوریہ ہو یا وزیر اعظم یہ آئین ہی ہے جو اعتبار بخشنے والا ہے لہذا کچھ لوگ اسی لئے آئین سے خوف کھاتے ہیں اور ڈرتے ہیں کیونکہ آئیں انکے اختیارات کو محدود کرتا ہے ہم سب پر لازم ہے کہ آئین کے سلسلہ سے بیداری لیکر آئیں اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں پیچھے نہ ہٹیں ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ۔ہمارے آئین کے اہم مفاہیم کیا ہیں جب ہم آئین کی تمہید کو دیکھتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ آئین میں کچھ اہم چیزوں کو حاصل کرنے کی بات کہی گئی ہے ،۱۔ آزادی ۲۔ مساوات ۳۔ عدل و انصاف۔۴۔ بھائی چارگی و اخوت یہ وہ مفاہیم ہیں جو آئین کے اندر موجود ہیں جنکے حصول کے لئے اتنا بڑا ضخیم بنیادی دستور العمل بنایاگیا جو البانیہ کے بعد ظاہرا دنیا کا سب سے بڑا اور ضخیم دستور ہے ۔۲۶ جنوری کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کے احتساب پر خود کو آمادہ کرنا ہے کہ آئین کی رو سے ہمیں کیا ملا اور ہم نے کیا کھویا ، ان پچھتر سالوں میں ہمارے ساتھ ملک میں کیا ہوا ؟ اور کیوں ہوا ؟ ہم اس میں خود کتنے ذمہ دار ہیں ۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے :؟
سوال یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور ان تمام مشکلات کے درمیان گھرے رہنے کے باوجود جو ہمیں لاحق ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں ۔ یہاں پر ہم سب کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے ماضی پر ایک نظر ڈالیں سب سے پہلے ہمیں اپنی تاریخ سے واقفیت کی ضرورت ہے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے ہم نے کیا خدمات کی ہیں وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو اپنی تاریخ کو فراموش کر دیتی ہیں لہذا ہمیں تاریخ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ ہم نے تاریخ سے ہندوستان کو آشنا کیا ہے یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ڈاکٹر گسٹاولی بان نے اپنی کتاب تمدن ہند میں بیان کیا ہے کہ" قدیم ہند کی کوئی تاریخ ہی نہیں تھی اور ہندوستان کا تاریخی زمانہ فی الواقع مسلمانوں کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور ہندوستان کے پہلے مورخ بھی مسلمان تھے "

نہ صرف تاریخ بلکہ صنعت و حرفت سے لیکر کاغذ و کپڑوں کا کاروبار یا ہندوستان کی پہلی بحریہ کی تشکیل اور بیرونی دنیا سے ہندوستان کا رابطہ ہو ہر ایک ترقی کے مرحلے پر ہمیں مسلمانوں کی خدمات نظر آتی ہیں لہذا ہمارے لئے پہلے مرحلے میں اپنی تاریخ سے آشنائی اور اس سے دوسروں کو مطلع کرنا ضروری ہے اس کے بعد اپنے سرمایہ پر توجہ رکھتے ہوئے بڑا دل رکھنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ بڑا کام وہی لوگ کر پاتے ہیں جو بڑ دل رکھتے ہیں ہمیں محض خود کو نجات نہیں دینا ہے بلکہ ہم تو اس مہدی عج دوران کا انتظار کر رہے ہیں جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دےگا ہمیں خود کو نجات یافتہ نہیں بنانا ہے ہمیں تو دوسروں کا ہاتھ بھی تھامنا ہے لیکن یہ ہم اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہمارا اپنا ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں نہ ہو اور خدا کی رسی کو ہم نے مضبوطی سے پکڑ رکھا ہو یقینااللہ کی ذات پر بھروسہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور امید کے ساتھ آگے بڑھنے کے ذریعہ ہم ایک بار پھر اپنی درخشان تاریخ کو رقم کر سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : https://www.developmentnews.in/thousands-indians-die-hunger-every-day/

https://scroll.in

۔ تفصیل کے لئے : https://thewire.in/government/pds-rice-ethanol-sanitiser
https://www.downtoearth.org.in/news/food/india-is-reeling-under-hunger-will-government-intervention-during-covid-19-help--79753
https://www.thehindu.com/news/national/govt-using-rice-to-make-sanitizer-for-rich/article31403056.ece
https://www.videovolunteers.org/food-crisis-in-india-the-state-of-hunger-i-india-loud-clear-ep-6/?gclid=Cj0KCQiArt6PBhCoARIsAMF5wajU6WSQeirJd-8hmDWk7JnmYPXbDn23XwUy2A9CgEn1AGoRrLoOrYEaAmZeEALw_wcB
۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : https://gomama247.com/indian-children-weight-and-height-chart-0-to-18-years/
https://gkfooddiary.com/indian-baby-growth-chart-height-weight/
https://www.shemrock.com/blogs/average-height-and-weight-chart-for-indian-boys-and-girls/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC6987783/
۔https://minorityaffairs.gov.in/reports/sachar-committee-report
https://ruralindiaonline.org/en/library/resource/implementation-of-sachar-committee-recommendations-status-up-to-30112018/
http://reports.mca.gov.in/Reports/30-Rajindar%20Sacher%20committee%20report%20of%20the%20High-powered%20expert%20committee%20on%20Companies%20&%20MRTP%20Acts,%201978.pdf
۔ تمدن ہند ، کتاب سوم ہندوستان کی تاریخ ، ۱۴۶ نقل از ہندوستانی مسلمان ایک تاریخی جائزہ ص ۲۲ سیدابو الحسن ندوی ۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند ، عبد الحیی حسنی ندوی ، اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ، عبد الحیی حسنی ندوی ، تلاش ہند ، جواہر لعل نہروص ۵۱۰
۔ نزہۃ الخواطر ، جلد ۴، تذکرہ سلطان محمود بن گجراتی، ص ۳۴۵

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .