۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
ایران میں ہندوستانی طلبہ نے منائی یوم جمہوریہ کی یاد

حوزہ/ ایران کے معروف شہر قم المقدس میں مقیم ہندوستانی طلبہ نے 25 جنوری کی شب وطن عزیز ہندوستان کے یوم جمہوریہ کی یاد میں ایک بزم کا انعقاد کیا جس میں ہندوستانی طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے معروف شہر قم المقدس میں مقیم ہندوستانی طلبہ نے 25 جنوری کی شب وطن عزیز ہندوستان کے یوم جمہوریہ کی یاد میں ایک بزم کا انعقاد کیا جس میں ہندوستانی طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

اس بزم کا انعقاد قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعہ ہوا اور نظامت کے فرائض مولانا قمر مہدی صاحب نے انجام دئے۔
مولانا قمر مہدی نے پروگرام کے آغاز میں یوم جمہوریہ کی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ 15 /اگست 1947 کو ہمارے ملک کو  ظاہری آزادی ملی تھی لیکن آئینی طور پر انگریزوں ہی کی حکومت تھی،اس لئے ہندوستانی راہنماؤوں نے اپنا آئین بنا کر 26 جنوری 1950 کو اس کا اعلان کیا اور انگریزی قانون کا کالعدم قرار دیتے ہوئے  اپنی مکمل آزادی اور استقلال کا اعلان کیا۔

اس کے بعد مولانا فصاحت حسین صاحب نے "ہندوستان  کے جمہوری نظام میں مسلمانوں کے حالیہ کردار" کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے  کہا کہ آزادی کے بعد بھی ہندوستان برطانیہ کے جارج ششم کے ماتحت تھا اور ماؤنٹ بیٹن ان کے نمائندے تھے، لیکن 26 جنوری 1950 کو آئینی طور پر ہندوستان بالکل مستقل ہوگیا۔

انہوں نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ مسلمانوں کا جمہوری آئین سے کیا رابطہ ہے، واضح کیا کہ خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور وہ کسی کا غلام بن کر نہیں رہنا چاہتا، اس لئے وہ ایسے قانون اور آئین کو اپنانا چاہتا ہے جو اس کے فطری تقاضوں کو پورا کرسکے اور جس میں کسی ایک شخص کی بالادستی کے بجائے جمہور کی بالادستی ہو۔ اس حوالے سے جب ہم ہندوستان کے آئین کو دیکھتے ہیں تو اس میں عدل و انصاف،مساوات،آزادی جیسی اقدار پر زور دیا گیا ہے۔ اور یہ وہ اقدار ہیں جن پر اسلام بھی تاکید کرتا ہے، اس لئے ایک مسلمان مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہ صرف اسے تسلیم کر سکتا ہے بلکہ اس کا محافظ، مفسر اور نافذ کرنے والا بھی بن سکتا ہے۔

مولانا نے ہندوستان میں مسلمانوں کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مسلمانوں نے نہ صرف ماضی میں بہترین کردار ادا کیا ہے بلکہ آج بھی وہ جمہوری نظام اور ملک کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

حوزہ علمیہ قم کے ممتاز طالب علم نے موجودہ دور میں ملک اور جمہوریت کے استحکام میں مسلمانوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک میں آبادی کے تناسب،آبادی میں جنسی توازن، مسلمانوں میں نوزائیدہ بچوں کی موت میں کمی، ملک میں ضرورتمندوں کی مدد، ظلم و ستم سہنے کے باوجود ظلم کے بجائے انسانیت اور قانون کا راستہ اپنایا، آئین کی بالادستی، ملک کے عدلیہ پر بھروسہ، ملک و قوم کے مستقبل کے تئیں امید بنائے رکھنے  اور دوسرے بہت سے پہلووں میں ہندوستان میں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے جمہوری نظام کو مضبوط بنانے میں اہم رول نبھایا ہے۔

مولانا موصوف نے اس نکتہ پر اپنی گفتگو ختم کی کہ ہم ایسے امام کے منتظر ہیں جو نہ صرف ایک خطے بلکہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کا پرچم لہرائیں گے اور دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کریں گے۔اس امام کو ماننے والے سماج میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

آخر میں حوزہ علمیہ قم برجستہ عالم دین مولانا سید رضا حیدر زیدی صاحب نے "ہندوستان کی حالیہ تحریکیں اور مسلمان"کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مولانا نے یوم جمہوریہ کے حوالہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ سب سے بنیادی بات یہ ہے آج ہم اپنے بناۓ ہوئے آئین پر عمل کر رہے ہیں۔لیکن حقیقت میں آزادی اور جمہوریت کا دن وہ ہوگا جب ترنگے کو سلامی دینے والے ہاتھ، اس آئین کے محافظ ہوں نہ کہ اس کا گلا دبانے والے۔

انہوں نے اسلام میں وطن سے محبت کے پیغام کے بارے میں بات کرتے ہو امام علیؑ کی حدیث کی طرف اشارہ کیا اور کہا:تمہارے لئے وہ سرزمین سب سے اچھی ہے جس نے تمہارا بوج اٹھا رکھا ہے، اس لئے جس سرزمین پر ہم رہتے ہیں اس کی حفاظت کرنا اور اس کے تئیں وفادار رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔

مولانا نے اپنے موضوع کے تئیں یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ کیا آج جمہوریت خطرے میں ہے؟ کہا: آج سچ میں جمہوریت خطرے میں ہے، جس کی دلیل یہ ہے کہ دو سال قبل سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ملک کا آئین اور جمہوریت خطرے میں ہے۔ اور دوسری دلیل نیتی آیوگ کے سربراہ امیتابھ کانت جی جیسے افراد کے بیانات ہیں جن کا یہ ماننا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔

انہوں نے موجودہ تحریکوں کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہا:بعض تحریکیں وہ ہیں جن کا تعلق عام ہندوستانیوں سے ہے جیسے کسانوں کی تحریکیں اور بعض کا تعلق مسلمانوں سے ہے جیسے اذان کا مسئلہ، تین طلاق کا مسئلہ، سی سے سے اور این آر سی۔

مولانا زیدی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:جہاں تک عام تحریکوں کا سوال ہے مسلمان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے ،اس لئےتمام تحریکوں میں مسلمان بھی آگے آگے ہیں اور اگر لاتعلق رہتے ہیں تو سب کے ساتھ انہیں بھی نقصان ہے۔جہاں تک ان تحریکوں کی بات ہے جن میں مسلمان پیش پیش ہیں ان میں انہیں جذبات کا بجائے حکمت سے کام لینا چاہیے۔ اور غیرمسلم افراد کو بھی ان میں لاتعلقی کے بجائے مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے جیسا کہ تمام مسائل میں مسلمانوں کے بہت سے غیر مسلم افراد بھی کھڑے نظر آئے۔ 

یوم جمہوریہ کی یاد میں  منعقد ہونے والی اس بزم میں ہندوستانی بچوں نے قومی ترانہ "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان بھی پڑھا" اور مولانا عامر نوگانوی نے نظم کی شکل میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

دوران بزم انقلاب زندہ بادا ور ہندوستان زندہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .