حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم المقدسہ/ شاتم رسول مقبول، ملعون دارین وسیم کے عدل و امن سوز اقدامات کھلی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنے کے لئے طلاب ہندوستان مقیم قم المقدسہ کی جانب سے ۱۲ ربیع الثانی ۱۴۴۳ھ.ق. بمطابق ۱۸ نومبر ۲۰۲۱ کو مدرسہ حجتیہ میں ایک ”احتجاجی جلسہ“ کا انعقاد کیا گیا۔ جلسہ کا آغاز مولانا سید جواد رضوی کی تلاوت کلام پاک سےہوا۔ اسکے بعد مولانا کاشف رضا صاحب نے نعت رسول مقبول پیش کی کاشف صاحب کے خوبصورت نعتیہ کلام کے بعد جلسہ کے ناظم محترم مولانا شمیم رضا صاحب نے اسلام ہراسی (اسلامو فوبیا) کا ذکر کرتے ہوئے مولانا محمد حسین سورت والا صاحب کو اسی موضوع پر تقریر کرنے کے لئے بلایا۔
مولانا نے ”ہندوستان میں اسلاموفوبیا کی صورتحال“ پر پرزنٹیشن پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کچھ لوگ اس عنوان کے متعلق یہ سوچیں کہ کیا توہین کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو پورے ہندوستان کا مسئلہ بتانا اسے بڑا بنانا نہیں ہے؟ مولانا نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم جس معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں اس میں غیرمسلمانوں کے ساتھ رابطہ رہتا ہے، مسالمت آمیز زندگی ہے۔ کیا اسلاموفوبیا نام کی بیماری ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے؟ معاشرے کو بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلاموفوبیا اور اسلام سے ڈرانے کا کام منصوبہ بند طریقہ سے طاقتور لابی کی حمایت کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہندوستان کی آزادی سے پہلے بھی اس میں اسلام ہراسی پائی جاتی تھی لیکن گزشتہ چند سالوں میں اس میں کافی زیادہ شدت پیدا ہوگئی ہے۔
مولانا موصوف نے اسلام ہراسی کے ۶ عناصر بیان کئے:
۱– مسلمانوں کی توہین کرنا، ۲– اسلامی مقدسات کی توہین کرنا، ۳– مسلمان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے جسمانی تکلیف پہنچانا، ۴– مذہب کے نام پر تفریق کا قائل ہونا، ۵– موہوم مستقبل سے ڈرانا، ۶– مسلمانوں کو ڈرانا اور معاشرے سے دور کردینا۔
مولانا محمد حسین سورت والا صاحب نے یہ عناصر بیان کرنے کے بعد ہر عنصر کے ذیل میں اس کے مصادیق بیان کئے اور کہا کہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ عناصر پائے جاتے ہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام ہراسی کا پروجیکٹ طاقتور لوگوں کی حمایت سے انجام پارہا ہے۔ جب ہم اس بات کا یقین کر لیں گے تب اس کے مقابلے کے لئے غور و فکر کریں گے اور راہ حل تلاش کریں گے۔
اس کے بعد محترم ناظم نے ” مقدسات کی توہین پر عدلیہ کا کردار اور ہمارے توقعات“ کے عنوان سے مولانا سید عاکف زیدی صاحب کو تقریر کرنے کی دعوت دی۔ مولانا عاکف زیدی صاحب نے اس سوال کے ساتھ اپنی گفتگو شروع کی کہ ہم کو عدلیہ سے توہین مقدسات کے سلسلہ میں کیا توقعات رکھنی چاہئیں اور مناسب ردعمل حاصل کرنے کے لئے کس حکمت عملی کو اپنانا چاہئے؟ آپ نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مندرجہ ذیل عناصر کی بنیاد پر عدلیہ کا ردعمل قائم ہوتا ہے:
پہلا عنصر: قانون ہے۔ ہندوستان میں ایسے قوانین پائے جاتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر عدلیہ کاروائی کرسکتا ہے۔
دوسرا عنصر: کیا عدلیہ کے ردعمل میں یہ لازمی ہے کہ اس سے مطالبہ ہو کہ وہ ردعمل دکھائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب مسئلہ فوجداری ہو تو خود عدلیہ وارد ہوسکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ عوام ایف آئی آر داخل کرے۔
تیسرا عنصر: سابقہ۔ عدلیہ کے فیصلوں میں یہ بات بہت اہم ہوتی ہے کہ اس قسم کے معاملات میں پہلے کس طرح کے فیصلے سنائے گئے ہیں؟ ہندوستان میں ایسے فیصلوں کی لمبی فہرست ہے جن میں عدلیہ نے توہین مقدسات کے خلاف فیصلے سنائے ہیں۔ منجملہ ۱۹۲۸ میں حکومت ہند کا سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی لگانا، ایک اخبار میں مسلمانوں کے مقدسات کی توہین ہونے پر ایڈیٹر کو گرفتار کرنا اور عدلیہ کا اسے صحیح قرار دینا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان عناصر کا ہونا کافی نہیں ہے۔ موجودہ ماحول اور توازن قدرت اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہےکہ عدلیہ کوئی بڑا قدم اٹھائے۔ ہم کو عدلیہ سے کیا توقع ہونی چاہئے؟ ہم کو یہ توقع نہیں ہونی چاہئے کہ عدلیہ توہین مقدسات کے مسئلہ میں عدلیہ خودبخود کوئی بڑا قدم اٹھائے گی۔ البتہ ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ابھی ایسے مواقع موجود ہیں جن کو استعمال کرکے ہم عدلیہ میں موجود مذکورہ عناصر کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہر ضلع سے اس مسئلہ کے خلاف ایف آئی آر درج ہو تو یقینا عدلیہ کو فیصلہ سنانے کے قریب لاسکتے ہیں۔
عاکف زیدی صاحب کی تقریر کے بعد مولانا محمد عسکری خان صاحب نے شاتم رسول کی مذمت کرنےو الے اشعار پڑھے۔ اس دوران شرکاء نے نعرۂ تکبیر، لبیک یا رسول اللہ اور شاتم رسول کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگائے۔
اسکے بعد ناظم محترم نے مولانا عباس مہدی حسنی صاحب کو ”حضرت محمد (ص) ہندو دانشوروں کی نظر میں “ کے موضوع پر مقالہ خوانی کے لئے دعوت دی۔ آپ نےفرمایا کہ خداوندعالم نے صرف پیغمبراکرم(ص) کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا جنہوں نے محبت اور انسانی حقوق کا پیغام دیا۔ خداوندعالم نے آپ کو مقام محمود پر قائم فرمایا اور خود ان کی تعریف کی ہے۔ اگر کوئی پیغمبر(ص) کی تعریف کرتا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ضمیر زندہ ہے۔ اس کے بعد آپ نے بعض دانشوروں جیسے سوامی برج نارائن سنیاسی، کالکی اوتار کے مصنف پنڈت ویر پرکاش اپدھیائے، سوامی لکشمی شنکراچاریہ اور گاندھی جی وغیرہ کے ان بیانات کو پیش کیا جس میں انہوں نے پیغمبراکرم(ص) کی عظمت بیان کی ہے۔ اس کے بعد مولانا سید شفیع رضوی بھیکپوری صاحب نے احتجاجی اشعار پڑھے۔
بعدہ ناظم محترم نے ”توہین رسالت کے اسباب اور ان کا سد باب“ کے موضوع پر روشنی ڈالنے کے لئے مولانا سید نجیب الحسن زیدی صاحب کو دعوت سخن دی۔ مولانا نجیب الحسن نے سورۂ صف کی ۸ویں آیت کو سرنامہ سخن قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ کچھ لوگ اللہ کے نور کو پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں لیکن اللہ اپنے نور کو مکمل کرنا چاہتا چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے اسکے بعد مولانا نے توہین کے اسباب و محرکات کو بیان کرتے ہوئے جہالت، تعصب، تسلط پسندانہ عزائم، دوسروں کو حقیر سمجھنا، ڈر اور خوف وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ عام طور پر تو توہین کے پیچھے اس طرح کے عوامل ہوتے ہیں لیکن حالیہ توہین کا مسئلہ الگ ہے حالیہ توہین کے معاملے کو ملکی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ممکن ہے یہ سارے عوامل بھی ہوں اور کچھ دوسری چیزیں بھی ہوں اسی کے نمونے کے طورپر مولانا نے ایک نظریاتی تنظیم کے بڑے رہنما کا یہ اقتباس نقل کیا کہ : ہندوستان میں آباد ساری اقلیتوں کو مقامی رسم و رواج اور طور طریقے اختیار کرنے ہونگے اور مسلمانوں کو ابھی ایک ہی انداز اختیار کرنا ہوگاسب کا رنگ ایک ہوگا، سب کا انداز ایک ہوگا وہ یہاں پر اس سرزمین پر رہتے ہوئے اپنے مذہب کی اشاعت نہیں کرسکتے اگر انہوں نے اپنے طرز کو نہیں بدلا تو اسپین کی تاریخ دہرائی جائے گی۔
ایک دوسرے موقع پر اسی شخصیت کی تقریر سے یہ جملہ بھی نقل کیا کہ " اگر مسلمانوں نے خود کو نہیں بدلا اور اپنی مذہبی شناخت پر قائم رہے تو ایسی صورت میں ہم وہی کریں گے جو ہٹلر نے کیا تھا۔
مولانا نے آگے بیان کیا کہ یہ جملے کسی عام شخص کے نہیں ہیں بلکہ یہ جملے موجودہ حکومت کی اہم شخصیتوں کے ذریعہ گرو مانے جانے والی اہم شخصیت کے ہیں مولانا نے مزید کہا کہ مسلسل توہین کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک تھا جس کو مسلمانوں نے برباد کردیا ہمیں اسے دوبارہ آباد کرنا ہوگا لہذا اسکے لئے ہمیں متحد ہونا ہوگا اور آپس میں ایک ہونے کا ایک بہترین طریقہ یہی ہے کہ نفرت کے محور پر ایک ہوا جائے اور انتقام کی بات کی جائے مولانا نے آگے بیان کیا کہ اسکے لئیے دشمن نے ایک لائحہ عمل بنایا ہے۔ ایک نظریاتی تنظیم کے بارے میں ایک صحافی کی بات کو نقل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان افراد نے مسلمانوں کے لئے تین مراحل رکھے ہیں: پہلا مرحلہ مسلمانوں کو دوسروں سے الگ کرنا اور ان کو یہ احساس دلانا کہ ہم کو تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اس سے ۸۰ فیصد ہندوؤں میں یکجہتی پیدا ہوگی۔ دوسرا مرحلہ مسلمانوں کا معیشتی اور سماجی بائیکاٹ کرنا ہے اور تیسرا مرحلہ انعام دیا جانا ہے۔ انعام انہیں لوگوں کو دیا جائے گا جو انکے رنگ میں رنگ جائیں گے اور انکے اشاروں پر چلیں گے
لیکن دشمن کی توجہ اس بات کی جانب نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نعرۂ تکبیر کہنے کے ساتھ ساتھ ہر خدا کا انکار کرتے ہیں اور کربلا سے پیغام لیتے ہوئے ”ہیہات منا الذلہ“ کا شعار اپناتے ہیں۔
اس موقع پر مجمع نے ”ہیہات منا الذلہ“ کے پرجوش انداز میں نعرے لگائے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہم کو توہین کے مسئلہ پر بولنے کے ساتھ ساتھ ظلم کے مواقع پر بھی بولنا ہوگا چاہے وہ تریپورا میں ہونے والا ظلم ہو یا کشمیر میں ہونے والا ظلم ہو توہین رسالت پر بولنا احتجاج کرنا ضروری ہے ہمارے ایمان کی نشانی ہے لیکن اگر کہیں پر ظلم ہو اور ہم خاموش رہیں تو یہ تعلیمات پیغمبر سے خیانت ہے ۔
اس کے بعد مولانا سید شمع محمد رضوی نے انتہائی پرجوش انداز میں منظوم احتجاج درج کرایا۔ اس کے بعد جلسہ کے آخری مقرر مولانا سید مراد رضا رضوی صاحب کو دعوت سخن دی گئی۔ مولانا مراد رضا صاحب نے فرمایا کہ جو بھی رسول(ص) کی شان میں گستاخی کرے گا آنے والا وقت اس کی ہستی کو خاک میں ملا دے گا۔ رسول(ص) کی شان میں گستاخی کرنےو الے کو بہرحال جلایا جائے گا۔ اس شاتم رسول نے خود اپنی سزا معین کر لی ہے۔ ہم کو کیا کرنا چاہئے؟ مولانا نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم کو ایسا کام کرنا چاہئے جس سے دشمن کا منصوبہ ناکام ہوجائے۔ ہمیشہ ہمارا طریقہ یہی رہا ہے۔ لہذا ہم موجودہ ماحول میں ایسا کام نہیں کریں گے جس سے شرپسندوں کو فائدہ پہنچے۔ ہم اس کے خلاف قانونی کاروائی کی ہی مانگ کریں گے۔ ہماری سب سے اہم ذمہ داری یہی ہے کہ ہم وہ کام کریں جس سے دشمن ناراض ہو۔ اگر ہم نے اپنا منصوبہ نہیں بنایا تو یہ احتجاج ناکام ہوجائے گا لہذا ہم غیرمسلمان دانشوروں کے بیانات اور شعراء کے اشعار کو عام کریں۔
جلسہ کے آخر میں طلاب ہندوستان مقیم قم کی جانب سے ہندوستان کی حکومت،عدلیہ مسلمانوں اور سارے ہندوستانیوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے جناب ساجد رضوی صاحب نے میمورنڈم جسکے ہر بند پر حاضرین نے نعرہ تکبیر اور لبیک یا رسول اللہ کہہ کر اپنی منظوری کا اعلان کیا اور مسجد حجتیہ کا پورا ہال توحیدی نعروں سے گونج اٹھا ۔آخر میں منجی بشریت کے لئے دعاء ظہور پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔