تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | اشتعال انگیز تقریر معاملے میں عدالت نے سماج وادی پارٹی کے قدآور رہنما اعظم خان کو تین سال کی سزا سنائی ہے۔اس کے بعد ان کی اسمبلی رکنیت کو بھی ختم کردیا گیا۔قابل غور یہ ہے کہ اعظم خان پر 80 سے زیادہ معاملات درج ہیں ۔شاید آزاد ہندوستان میں پہلی بار کسی سیاسی رہنما پر اس قدر مقدمات قائم کئے گئے ہیں ۔سماج وادی پارٹی کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعداعظم خان کا سیاسی زوال شروع ہوگیا تھا ۔پارٹی بھی نہیں چاہتی تھی کہ اعظم خان متحرک رہیں کیونکہ مسلمان ان سے دور ہوچکا تھا ۔لہذا اعظم خان کے جیل جانے کے بعد اکھلیش یادو نے بہت زیادہ ان کی پیروی نہیں کی ۔بہر کیف!فی الوقت موضوع گفتگو نفرت انگیز تقریر معاملے میں عدلیہ کے ذریعہ اعظم خان کو سنائی گئی سزا سے متعلق ہے ۔ اعظم خان پر یہ الزام تھاکہ انہوں نے سال 2019ء کی انتخابی مہم کے دوران رام پور میں نفرت انگیز تقریر کی تھی ۔انہوں نے رام پور میں لوک سبھا انتخاب کے موقع پر وزیر اعظم مودی ،وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور رام پور کے ضلع مجسٹریٹ کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیے تھے ۔اس سلسلے میں ان پر مقدمہ قائم کردیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں عدلیہ نے انہیں مجرم قرار دیتے ہوئیے تین سال کی سزا سنائی ہے اور اب ان کی اسمبلی رکنیت کو بھی منسوخ کردیا گیاہے ۔جبکہ بی جے پی رہنما وکرم سینی کی رکنیت ابھی تک منسوخ نہیں کی گئی جبکہ عدلیہ نے انہیں اعظم خان سے پہلے سزا سنائی تھی ۔یہ امتیازی سلوک صرف اس لئے روا رکھا گیاکیونکہ اعظم خان مسلمان ہیں اور وکرم سینی بی جے پی کے رکن اسمبلی ہیں ۔ان دو مثالوں کے ذریعہ سمجھا جاسکتاہے کہ ملک میں انصاف کی صورتحال کیاہے اور انتظامیہ پر کس قدر زعفرانی رنگ چڑھاہواہے ۔ہمیں اعظم خان سے کوئی ذاتی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ان کا سیاسی کردار ہمارے لئے نمونۂ عمل رہاہے ،لیکن عدلیہ اور قانون ساز اسمبلیوں کے سیاسی رجحان کو مذکورہ دومثالوں سے سمجھا جاسکتاہے ۔
عدلیہ کے ہر فیصلے سے پہلے قیاس آرائیاں ہونے لگتی ہیں ۔فیصلہ کس کے حق میں ہوگا؟اس قضیہ کے قانونی پہلو کیا ہیں ؟آیا انصاف کی توقع رکھی جاسکتی ہے ؟سماعت کرنے والے ججوں کا ماضی کیاہے ؟ یا وہ کس فکر سے تعلق رکھتے ہیں ؟ اس سے پہلے وہ کونسے متنازع یا اہم فیصلے کرچکے ہیں ؟وغیرہ وغیرہ۔ظاہر ہے یہ تمام ترقیاس آرائیاں عدلیہ پر عام آدمی کے عدم اطمینان کو ظاہر کرتی ہیں ۔ایسانہیں ہے کہ عام آدمی کو عدلیہ پر یقین نہیں ہے بلکہ گذشتہ کچھ سالوں میں جس طرح کے متنازع فیصلے سنائے گئے ہیں ،ان کے پیش نظر یہ قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں ۔مثال کے طورپر بابری مسجد کے خلاف رام مندر کے حق میں فیصلہ سنانے والے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے تمام قانونی پہلوئوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندو فریق کی ’آستھا‘ کو پیش نظر رکھا تھا ۔فیصلہ میں یہ بھی کہاگیاکہ رام مندر توڑکر مسجد تعمیر کرنے کے ثبوت دستیاب نہیں ہیں ،اس کے باوجود آج تک یہ بیانیہ قائم ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر رام مندر کو توڑ کر کی گئی تھی ۔دوسری اور اہم بات یہ کہ بابری مسجد اور رام مندر جیسے حساس معاملے کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس گوگوئی بی جے پی کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا بھیج دیے گئے ۔جس کے بعد ان کے ذریعہ سنائے گئے ہر فیصلے کے سیاسی معنی نکالے گئے ۔اسی طرح کرناٹک ہائی کورٹ نے قرآن مجید اور تعلیمات اسلامی کا مطالعہ کئے بغیر حجاب کو اسلام کا لازمی جزو تسلیم نہیں کیا اور حجاب پر پابندی کو صحیح قراردیدیا ۔اس فیصلے کے بعد عدلیہ پر سیاسی دبائو بہت واضح نظر آنے لگا تھا ،جس کی قلعی سپریم کورٹ میں کھل گئی ۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عدلیہ ہمیشہ ریاست کے زیر اثر رہتی ہے ۔لیکن انصاف کی بے حرمتی اس قدر کبھی نہیں کی گئی ۔اور اب تو یہ روش عام ہوچلی ہے ۔
جس عدلیہ نے اعظم خان کو مجرم قرار دیاہے اس عدلیہ سے عام آدمی سوال کرسکتاہے کہ آیا نرسنگھا نند ،کپل مشرا،انوراگ ٹھاکر ،پرویش ورما جیسے لوگ نفرت کےسوداگر نہیں ہیں ؟ ’دیش کے غداروں کو ،گولی مارو سالوں کو ‘ اور ’’مسلمانوں کے اقتصادی و سماجی بائیکاٹ ‘ ‘ کا اعلان کرنے والے لوگ آزاد کیوں گھوم رہے ہیں ؟دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے ہندوئوں کو اکسایا جاتاہے اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ،کیا یہی جمہوریت ہے ؟کیا اعظم خان کا جرم ان سب سے بڑا ہے ؟ اگر ہاں تو کیسے؟اس کی وضاحت کون کرسکتاہے؟۔آئین ہندپر عام آدمی کا یقین اس وقت متزلزل ہونے لگتاہے جب کاروائی یک طرفہ ہوتی ہے ۔پولیس انتظامیہ سے تو خیر انصاف کی توقع رکھنا ہی عبث ہے کیونکہ ہماری پولیس تو پوری طرح فرقہ پرستوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ۔جن افسران نے فرقہ پرستوں کے خلاف کاروائی کی کوشش کی ،یا تو آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں یا پھر ان کی تقدیر گردش میں اور پائوں مسلسل سفر میں رہتے ہیں ۔ہیمنت کرکرے ،تنزیل احمد اورانسپکٹرسبودھ کمار جیسے افراد کا قتل اس دعویٰ پر دلیل ہے۔
اعظم خان کو ’ہیٹ اسپیچ ‘کے جرم میں تین سال کی سزاسنائی گئی ،جس پر کسی بھی انصاف پسند شخص کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔لیکن ان سے زیادہ نفرت انگیزی کرنے والے لوگ آزاد کیوں گھوم رہے ہیں؟یوگی آدتیہ ناتھ مسلمان خواتین کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر عصمت دری کی بات کرتے ہیں تو ان کی اس تقریر کو ’’ہیٹ اسپیچ‘‘ کے زمرے کیوں نہیں رکھا جاتا ؟وزیر داخلہ امیت شاہ جب یہ کہتے ہیں کہ اس بار کرنٹ شاہین باغ تک جائے گا ،تو اسے ہیٹ اسپیچ نہیں مانا جاتا؟ایک مخصوص فرقے کو ’’ کتّے کا پلّا ‘‘ کہا گیا تو اس پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی ،کیا یہ جملہ ہیٹ اسپیچ کے دائرے میں نہیں آتا ؟ملک کے انتخابات کو قبرستان اورشمشان کی سیاست میں بدلا جاتا ہے تو اسے اشتعال انگیزی تصور نہیں کیا جاتا ۔’علی اور بجرنگ بلی‘کی سیاست کیا ملک کے مفاد میں تھی ؟ الغرض لاتعداد مثالیں موجود ہیں جن پر الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے کوئی مناسب اقدام نہیں کیا ۔ان پر کاروائی صرف اس لئے نہیں ہوتی کیونکہ وہ اکثریتی طبقے کے نمائندےاور ملک کی برسراقتدار جماعت کے رکن ہوتے ہیں ۔کاروائی صرف ایک مخصوص طبقے کے افراد پر ہوتی ہے اور بقول شاعر ؎ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
سپریم کورٹ میں بابری مسجد فیصلے سے لے کرحجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے تک مسلمانوں کے ساتھ جاری ناانصافیوں کی ایک لمبی داستان ہے ۔اس ایک داستان میں ہزار ہا الگ الگ چھوٹی بڑی داستانیںمدغم ہیں ۔ہر داستان کا اپنا ایک الگ رنگ اور پس منظر ہے ۔افسوس یہ ہے کہ ہماری قوم کے پاس داستان گویوں کی کمی نہیں ہے مگر کوئی سننے والا نہیں ۔زخم تو ہیں تو مگر چارہ گرنہیں ۔اس صورتحال کے ذمہ دار فقط اور فقط مسلمان ہیں ۔انہوں نے سیاسی جماعتوں اور خودساختہ رہنمائوں پر اس قدر تکیہ کیا ،کہ آج ان کی سیاسی و سماجی حیثیت مشکوک ہوکر رہ گئی ۔تعلیم سے عاری قومیں اپنے مسائل کے حل کے لئے دوسروں کی محتاج رہ جاتی ہیں ۔مسلمانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔اس قوم نے فقط نعرے لگائے ہیں اور بس! مسلمانوں نےکبھی اعظم خان کے پیچھے اپنی توانائی صرف کی اور کبھی ملائم سنگھ یادو کی گاڑی کے پیچھےاپنے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے ۔سیکولر جماعتوں نے ان کے مسائل کو بھنانے کی ہر ممکن کوشش کی اور فرقہ پرست طاقتوں نے انہیں ملک کی ترقی کے لئے خطرہ بتلاکر اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف متحد کردیا۔نتیجہ یہ ہواکہ مسلمان نہ منظر میں رہا اور نہ حاشیے پر ۔آج بھی مسلمان اپنی قیادت کی تلاش میں نہیں ہے ۔اس کی نگاہیں اب بھی سیاسی رہنمائوں پر مرکوز ہیں تاکہ وہ ان کےمسائل کے حل کے لئے مناسب اقدام کرسکیں ۔سیاسی رہنما اپنے سیاسی مفادات پیش نظر رکھتے ہیں اور ملّائی قیادتوں نے ملت کو سوائے مایوسی کے اور کچھ نہیں دیا ۔اس لئے ایسی قیادتوں سے کوئی توقع وابستہ رکھنا خود فریبی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
مسلمانوں کو آئین ہند پر اتنا ہی یقین ہے جتناکہ انہیں اپنی مذہبی کتابوں پر ہے ۔لیکن آئین کو نافذ کرنے والے لوگ آئین ہند کے تئیں مخلص نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کو نفرت انگیز بیانات پر سخت موقف اختیارکرنا پڑا ۔عدالت عظمیٰ نے کہاکہ نفرت آمیز بیانات کے معاملے میں کسی کا مذہب دیکھے بغیر فوری کارروائی کی جائے۔ اس کے لئے افسران، عدالت کی ہدایت یا حکومت کی جانب سے احکامات ملنے کا انتظار نہ کر یں بلکہ از خود نوٹس لے کر قانونی اقدام کریں۔اکیسویں صدی میں اس طرح کی صورتحال افسوس ناک ہے ۔عدالت عظمیٰ نے کہاکہ ایک جمہوری ملک کے لئے یہ وقت انتہائی حیران کن ہے ۔ہم نے ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ہم مذہب کے نام پر کہاں پہونچ گئے ہیں ۔ایسی اشتعال انگیز تقاریر پریشان کن ہیں ،خصوصاً ایسے ملک میں جو جمہوری اور کثیر المذہب ہے ۔ملک کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے کے لیے فوری طور پر اس کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے ۔عدالت عظمیٰ نے ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو آئینہ دکھایا ہے ۔اگر حکومتیں اشتعال انگیزی پر سنجیدگی سے کاروائی کرتیں ،تو عدالت عظمیٰ کو اس قدرسخت بیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ہندوستان کو سیکولر ملک کہہ کر عدالت عظمیٰ نے اس زعفرانی پروپیگنڈہ کو بھی باطل کردیا جو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان سیکولر ملک نہیں ہے ۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔