حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مذہبی و بین الاقوامی امور کے ماہر اور مہر نیوز ایجنسی اردو کے ایڈیٹر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ذاکر حسین جعفری نے حجاب پر پابندی کے حوالے سے کرناٹک ہائی کورٹ کے حکم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: کرناٹک ہائي کورٹ نے حجاب کے خلاف حکم صادر کرکے انسانی ، اخلاقی ، الہی اور قرآنی احکام کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرناٹک ہائي کورٹ کے فیصلے سے الہی اور قرآنی دستورات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے مذہبی احکامات کو بدل سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں ایسا کرنے کی اجازت دی جائےگی۔مزید کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ مذہبی احکام پر ایسا وار ہے جسے کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائےگا۔ ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی بھر پور اور سخت الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے۔ اور ہائی کورٹ کے اس غیر آئينی اور غیر اخلاقی فیصلے کے خلاف پرامن احتجاج کرنا چاہیے۔ عالمی اداروں اور اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو بھی بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری لہر کا نوٹس لینا چاہیے۔ تمام مذاہب کے بنیادی اور اساسی قوانین کا احترام ضروری ہے۔ اسلام اور قرآن کے بنیادی قوانین کا بھی احترام ہونا چاہیے ۔
حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مذہبی و بین الاقوامی امور کے ماہر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں اسلام کے خلاف جاری دہشت گردی کی لہر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اسلامی آئین اور قوانین کے خلاف کسی بھی قسم کے حملے کو برداشت نہیں کیا جائےگا۔ حجاب تمام مذاہب اور آسمانی ادیان کا حصہ ہے ۔ مذہب ہمیں برادری ، اخوت اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔
انہوں نے کہا: کرناٹک ہائي کورٹ کا فیصلہ در حقیقت اسلامی اور قرآنی احکام پر حملہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے بنیادی آئين پر بھی مہلک حملہ ہے۔ کرناٹک ہائي کورٹ کا فیصلہ انسانی آزادی پر بھی حملہ ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے اسلامی اور بنیادی حقوق کو پامال کرنے کی ایک گہری سازش کا سلسلہ جاری ہے، جس کے پیچھے عالمی سامراجی طاقتوں اور اسرائيل کا ہاتھ ہے۔ ہندوستانی عدالتوں کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جاری ہندو انتہا پسندانہ لہر کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری شدت پسندی کی لہر کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
مزید کہا کہ ہندوستان میں بعض ہندو انتہا پسند اور شدت پسند تنظیمں ہندوستان عدالتوں پر اثر انداز ہورہی ہیں اور ہندوستانی عدالتوں کا ہندو انتہا پسند تنظیموں کے سامنے تسلیم ہوجانا اور ان کی مرضی کے مطابق فیصلے صادر کرنا ہندوستانی عدلیہ کے لئے بہت بڑا المیہ ثابت ہوگا۔ہندوستانی عدالتوں کو بھارت میں تمام مذہب کے ماننے والوں کو اس کے مذہب کے مطابق انصاف فراہم کرنا چاہیے۔ کرناٹک کے ججز کا حجاب کے خلاف فیصلہ ججوں کی اسلام کے بارے میں عدم معلومات کا واضح ثبوت ہے۔۔
آخر میں کہا کہ ہندوستان دنیا بھر میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگي کے لحاظ سے ایک مثالی ملک تھا اور اسے مثالی رہنا چاہیے۔ہندوستانی عدالتوں کو تمام مذاہب کے بنیادی اور اساسی قوانین کا احترام کرنا چاہیے اور انسانی و اخلاقی اقدار کے پیش نظر حکم صادر کرنا چاہیے۔ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری اور انھیں خاص طور پر تعصب کا نشانہ بنانا بھارتی عدالتوں کی شان و مقام کے خلاف ہے۔