حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ملک ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو آئینی حیثیت دیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے، جس میں اس قانون کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ ہندوستان میں مذہبی تنوع اور ثقافتی تعلیم کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے عزم کے تحت لیا گیا۔
سپریم کورٹ کے بینچ، جس میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پردیوالا اور منوج مشرا شامل تھے، نے کہا کہ ہندوستان ایک "ملٹی کلچرل" ملک ہے، جہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو جینے کا حق ہونا چاہئے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ریاست کو مدرسوں میں تعلیم کے معیار کو منظم کرنے کا حق حاصل ہے۔
وکیل جعفر رضا زیدی، جو اس قانون کی حمایت میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں نمائندگی کر رہے تھے، نے اس تاریخی فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہندوستانی عدلیہ میں اقلیتی حقوق کی حفاظت کے لئے ایک اہم سنگ میل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ مذہبی تعلیم اور عمومی تعلیم کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لئے ایک راہ ہموار کرتا ہے، جس سے مدرسوں کے طلباء کو اپنے مذہب اور ثقافت کی تعلیم حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔
یہ فیصلہ لاکھوں طلباء کے لئے ایک سہارا ہے جو مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس سے سماج میں ہم آہنگی اور بہتر تعلقات کی تشکیل میں مدد ملے گی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس قانون کا مقصد مذہبی تعلیم کو عمومی تعلیم کے ساتھ متوازن رکھنا ہے تاکہ ملک کی ثقافت کی حفاظت کی جا سکے۔