۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
الہ آباد ہائی کورٹ

حوزہ/ الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو منسوخ کر دیا ہے، جس کے تحت مدرسوں کو سرکاری امداد ملتی تھی، ہائی کورٹ نے اسے سیکولرازم کے اصولوں کے منافی قرار دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش مدرسہ بورڈ کو جھٹکا دیتے ہوئے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیا ہے اور اسے منسوخ کر دیا ہے، عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ یہ ایکٹ سیکولرازم کے اصولوں کے متصادم ہے، نیز، یوپی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی مزید تعلیم کے لیے ایک منصوبہ بنائے اور انہیں مرکزی دھارے کے تعلیمی نظام میں شامل کرے۔

واضح رہے کہ انشومن سنگھ راٹھور سمیت کئی لوگوں نے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 اور اس کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں عرضداشت داخل کی تھی، اس عرضداشت میں حکومت ہند، ریاستی حکومت اور محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے مدارس کے انتظام اور دی جانے والی امداد پر اعتراضات کیے گئے تھے، عرضداشت پر سماعت کے بعد جسٹس ویویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی ڈویژن بنچ نے یہ حکم سنایا۔

نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع رپورٹ کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ کی بنچ کے اس فیصلے کے بعد اب تمام امداد یافتہ مدارس کو ملنے والی گرانٹ یعنی حکومتی امداد بند ہو جائے گی اور حکومت کی امداد پر چلنے والے مدارس ختم ہو جائیں گے، تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے مدارس میں مذہبی تعلیم دی جا رہی تھی، عدالت نے اسے سیکولرازم کے بنیادی اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے مدرسوں کے امداد سے متعلق قانون کو رد کر دیا۔

اس سے قبل یوگی حکومت نے ریاست میں چل رہے مدارس کا سروے کرایا تھا، سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ ریاست میں 16513 تسلیم شدہ مدارس ہیں، جبکہ ساڑھے آٹھ ہزار غیر تسلیم شدہ مدارس بھی چل رہے ہیں، اس کے بعد یہ الزامات لگائے گئے کہ ان مدارس کو غیر ملکی فنڈنگ ملتی ہے جس کا وہ غلط استعمال کر رہے ہیں، اس معاملے کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، ایس آئی ٹی نے اپنی جانچ کے بعد یوگی حکومت سے تقریباً 13 ہزار مدارس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی۔ جانچ میں غیر قانونی پائے جانے والے زیادہ تر مدارس نیپال کی سرحد پر واقع ہیں۔

ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ یہ مدارس گزشتہ دو دہائیوں میں خلیجی ممالک سے ملنے والی رقم سے بنائے گئے ہیں، رپورٹ میں ایس آئی ٹی نے کہا کہ جب ان مدارس سے ان کی آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات مانگی گئیں تو وہ انہیں فراہم نہیں کر سکے، جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جمع کی گئی رقم کو حوالہ کے ذریعے مدرسوں کی تعمیر کے لیے بھیجا گیا، زیادہ تر مدارس نے اپنے جواب میں چندے کی رقم سے مدرسے کی تعمیر کا دعویٰ کیا مگر چندہ دینے والوں کے نام نہیں بتا سکے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ اور آلہ آباد ہائی کورٹ میں کرمچاری ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اینڈ مدرسہ جامعہ بیت العلوم کے نمائندے محمد کمیل حیدر نے کہا: ہم مدرسہ ایکٹ اور اتر پردیش میں مذہبی تعلیم کی فراہمی کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کریں گے، یونین آف انڈیا نے واضح طور پر اس فیصلے پر اپیل کرنے سے گریز کیا ہے، لہٰذا، مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے تمام مذہبی اختلافات کو چھوڑ کر سپریم کورٹ میں اس من مانی فیصلے کے خلاف اپیل کریں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .