حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی/ہندوستان کی سپریم کورٹ نے غیر منظور شدہ مدارس کی منظوری واپس لینے اور طلباء کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کے قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال (این سی پی سی آر) کے احکامات پر عمل درآمد کو روک دیا۔ یہ فیصلہ جمعیۃ علماء ہند کی درخواست پر سنایا گیا، جس میں مسلم تنظیم نے اتر پردیش اور تریپورہ حکومتوں کی جانب سے مدرسوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ کی بنچ، جس میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاڑدی والا اور جسٹس منوج مشرا شامل ہیں، نے این سی پی سی آر کے خطوط اور ریاستی حکومتوں کے احکامات کا جائزہ لینے کے بعد یہ حکم دیا۔ این سی پی سی آر نے 7 جون 2024 کو اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی تھی کہ آر ٹی ای (رائٹ ٹو ایجوکیشن) ایکٹ کی عدم تعمیل کرنے والے مدارس کی منظوری منسوخ کی جائے۔
جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے دلیل دی کہ یہ کارروائیاں غیر منصفانہ ہیں اور ان سے ہزاروں طلباء متاثر ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ این سی پی سی آر کی خطوط پر فی الحال کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب کمیشن نے مدارس کے لیے سرکاری فنڈنگ روکنے کی تجویز دی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ادارے بنیادی تعلیم فراہم نہیں کر رہے۔ این سی پی سی آر کے صدر پریانک کاننگو نے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے کبھی بھی مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ انہوں نے تعلیم کے حق کی پاسداری کے لیے یکساں مواقع کی وکالت کی ہے۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اقلیتوں کے تعلیمی حقوق کی جیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ مدارس کے حق میں ایک بڑی کامیابی ہے اور امید ظاہر کی کہ حتمی فیصلہ بھی مدارس کے حق میں آئے گا۔
واضح رہے کہ یہ کیس ہندوستان میں مذہبی تعلیم اور بنیادی تعلیم کے حقوق کے معاملے میں ایک اہم موڑ ہے، جس پر سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آئندہ اہم اثر ڈالے گا۔