حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر اشتعال انگیز بیان دینے والے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ عدالت نے دہلی، اترپردیش اور اتراکھنڈ حکومتوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس طرح کے بیانات کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے فوجداری مقدمہ درج کریں۔ اس کے لیے کسی کی طرف سے شکایت درج ہونے کا انتظار نہ کریں۔ کارروائی میں ناکامی سپریم کورٹ کی توہین تصور کی جائے گی۔
درخواست گزار شاہین عبداللہ نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل پرتشدد بیانات دیئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے خوف کا ماحول ہے۔ لیکن عدالت نے کہا کہ مسلمانوں کی طرف سے بھی نفرت انگیز بیانات دیے جا رہے ہیں۔ تمام معاملات میں منصفانہ کارروائی ہونی چاہیے۔
سینئر وکیل کپل سبل نے درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے جسٹس کے ایم جوزف اور ہریشی کیش رائے کی بنچ کے سامنے بی جے پی لیڈروں کے بیانات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی ایم پی پرویش ورما نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی بات کی۔ دھرم سنسد معاملے میں سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے احکامات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔
جسٹس کے ایم جوزف نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ 21ویں صدی ہے، ہم مذہب کے نام پر کہاں آ گئے ہیں؟ ہمیں ایک سیکولر اور روادار معاشرہ ہونا چاہیے، لیکن آج نفرت کا ماحول ہے۔ سماجی تانے بانے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ہم نے خدا کو کتنا چھوٹا کر دیا ہے، اس کے نام پر جھگڑے ہو رہے ہیں۔ اس پر کپل سبل نے کہا کہ لوگوں نے اس طرح کی تقریروں پر کئی بار شکایت کی ہے۔ لیکن انتظامیہ غیر فعال ہے۔
بنچ کے ایک اور رکن جسٹس ہرشکیش رائے نے کہا کہ کیا ایسی تقریریں صرف ایک طرف سے کی جا رہی ہیں؟ کیا مسلم لیڈر نفرت انگیز تقاریر نہیں کر رہے؟ آپ نے درخواست میں صرف یک طرفہ الفاظ کیوں کہے؟" اس پر کپل سبل نے کہا کہ جو بھی نفرت پھیلاتا ہے، اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
اس کے بعد ججوں نے تقریباً 25 منٹ کا وقفہ لیا۔ آخر میں جسٹس جوزف نے فیصلہ لکھتے ہوئے کہا کہ آئی پی سی میں دشمنی پھیلانے کے خلاف 153A، 295A، 505 جیسی کئی دفعہ ہیں لیکن پولیس ان کا استعمال نہیں کرتی ہے تو نفرت پھیلانے والے کبھی نہیں ہوسکتے۔ پٹیشن میں دہلی، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ہم ان ریاستوں کو ہدایت دے رہے ہیں کہ ایسے معاملات میں فوری طور پر مقدمات درج کریں اور مناسب قانونی کارروائی کریں۔ اس کے لیے کسی شکایت کا انتظار نہ کریں۔"
عدالت نے واضح کیا کہ آئندہ اگر پولیس قانونی کارروائی میں ناکام رہی تو اسے سپریم کورٹ کی توہین تصور کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے تینوں ریاستوں سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ماضی میں دیے گئے تمام نفرت انگیز بیانات کے بارے میں کی گئی کارروائی کی تفصیلات عدالت میں پیش کریں۔