حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں نفرت انگیز اور فرقہ وارانہ پروگراموں کے لیے بدنام سدرشن ٹی وی چینل کے صحافی ’’سریش چوہانکے‘‘ نے ایک بار پھر نفرت انگیز بیانات دئے ہیں، جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر لوگوں میں شدید ناراضگی ہے۔
سریش چوہانکے نے اتراکھنڈ میں ہونے والے واقعات کے بارے میں ٹویٹ کیا جہاں انتہا پسند ہندو تنظیمیں مسلمانوں کو ان کے گھروں اور دکانوں سے نکالنے کے لیے حملے کر رہی ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے اور مسجد النبی کے انہدام کی بات کرنے پر سریش چوہانکے کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ 26 مئی کو اتراکھنڈ میں ایک لڑکی کو اغوا کیا گیا تھا، اس واقعے میں دو ملزمان تھے، ایک ہندو اور ایک مسلمان، انتہا پسند تنظیموں کے لیے صرف ایک ملزم کا مسلمان ہونا کافی تھا، انہوں نے مسلمانوں کے خلاف شدید ہنگامہ شروع کر دیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انتہا پسند گروہ مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر حملہ کر رہے ہیں اور انہیں گھروں سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سریش چوہانکے کے نفرت انگیز ٹویٹ کے جواب میں معروف صحافی محمد زبیر نے لکھا کہ ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال سریش چوہانکے اور کچھ دوسرے لوگ اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اشتعال انگیز تقریریں کرنے کے لیے کر رہے ہیں، اس بیان کو عام لوگوں نے نہیں بلکہ نیوز چینل کے مالکان نے دیے ہیں۔
اس معاملے میں حکومت کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے صحافی ساکشی جوشی نے کہا کہ کیا وزیر قانون یہ چیزیں دیکھ رہے ہیں؟ کیا ہمارے ملک میں عدلیہ موجود ہے؟ کیا ہم اب بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آئین کی حکمرانی ہے؟ اہل وطن کے حقوق کا احترام اور تحفظ کیا جانا چاہیے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور ذات سے ہو۔
صحافی اشرف حسین نے ٹوئٹر کے مالک ایلن مسک کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ایک شخص پورے معاشرے کو شیطان کہتا ہے اور ان کی نسل کشی کی بات کرتا ہے، کیا یہ ٹوئٹر کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔