حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا ہے کہ اتراکھنڈ اور اس کے بعد گجرات کی حکومت نے جو یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا ہے، وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کی تمام اقلیتوں اور اکثر قبائلی گروہوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔یہ بات انہوں نے آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ دستور کے تحت بنیادی حقوق میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنا، عمل کرنا اور مذہب کی تبلیغ شامل ہے، اس لئے مختلف گروہوں کے پرسنل لا کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور یہ بات بھی محتاج اظہار نہیں کہ بنیادی حقوق ہی دستور کی اصل روح ہے۔
ملک کے معماروں اور دستور بنانے والوں نے خوب سوچ سمجھ کر اور ہندوستان کے کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی ڈھانچہ کو سامنے رکھ کر اس دفعہ کو شامل کیا تھا، یہ ملک کی سالمیت اور قومی یکجہتی کی بنیاد ہے؛ کیوں کہ سماجی اور خاندانی قوانین سے مختلف گروہوں کی شناخت متعلق ہوتی ہے، اگر لوگوں کو اُن کی شناخت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ بات گوارہ نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے پہلے سے مختلف گروہ اپنے اپنے پرسنل لا کے ساتھ اس ملک میں رہتے آئے ہیں، انگریزوں نے بھی اسی کو برقرار رکھا اور آزادی کے بعد بھی گزشتہ75 سال سے اسی انداز پر ملک کا نظام چل رہا ہے، مگر اس سے کوئی دشواری پیش نہیں آئی، اگر ملک کی عوام اپنے مذہبی قوانین کے بجائے کامن سول کوڈ کو پسند کرتے تو اسپیشل میرج ایکٹ ملک کا مقبول ترین پرسنل لا ہوتا؛ لیکن ایسا نہیں ہوا، آج بھی شہریوں کے لئے اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ اگر وہ اپنے مذہبی پرسنل لا کو پسند نہیں کرتے ہوں تو وہ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت نکاح کرسکتے ہیں، ایسی صورت میں اُن پر مسلم پرسنل لا یا کسی اور پرسنل لا کا اطلاق نہیں ہوگا؛ مگر عمومی طور پر لوگوں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا، بعض حضرات دستور کے رہنما اصول کی دفعہ 44 کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں یکساں سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں دو باتیں ذہن میں رکھنی چاہئے، اول یہ کہ ان کی حیثیت اخلاقی اور ترغیبی ہے، ان کو وہ درجہ حاصل نہیں جو بنیادی حقوق کو ہے، رہنما اصول میں تو شراب بندی کی بھی ترغیب دی گئی ہے؛ لیکن کیا حکومت نے اس کو عملی جامہ پہنایا ہے اور اس کے لئے کبھی مؤثر کوششیں کی گئی ہیں؟ دوسرے: یہ ترغیب تو ان قبائلی روایات کو سامنے رکھ کر دی گئی تھی، جو تہذیب، اخلاق اور صحت کے مغائر ہیں، مثلاََ ایک عورت کا چند مردوں سے نکاح وغیرہ؛ اس لئے رہنما اصول کا حوالہ دینا محض ایک دھوکہ ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف قبائل سے خود سرکار نے معاہدہ کیا ہے کہ ان کے رسوم ورواجات کو برقرار رکھا جائے گا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی؛ اس لئے اگر لوگوں کو اُن کے مذہبی اور قومی تشخص سے محروم کر دیا جائے تو اس سے اتحاد اور بھائی چارہ متأثر ہوگا، غرض کہ کامن سول کوڈ دستور کے بھی خلاف ہے، اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہے اور اُلٹے نقصان کا اندیشہ ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اتراکھنڈ میں بھی وہاں کی مذہبی تنظیموں اور شہریوں کے واسطہ سے حکومت تک یہ بات پہنچا چکی ہے کہ اقلیتوں کے لئے یہ بات ناقابل قبول ہے اور وہ قومی سطح پر بھی دوسری اقلیتوں کے ساتھ مل کر پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت کرے گی ، بورڈ اس سلسلہ میں سکھ، کرسچن، بدھسٹ اور دوسری مذہبی اور تہذیبی اکائیوں کے ساتھ رابطہ میں ہے اور سچائی یہ ہے کہ حکومتیں الیکشن کے موقع پر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے اس طرح کے موضوعات اٹھاتی ہیں، اور نفرت کے ماحول کو فروغ دیتی ہیں؛ اس لئے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ایسے بے فائدہ کاموں میں اپنا وقت ضائع نہ کرے اور اقلیتوں کو جو بنیادی حقوق دئیے گئے ہیں، ان کا پاس ولحاظ رکھے۔