حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اتراکھنڈ میں پیر سے یکساں سول کوڈ نافذ کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے اس قانون کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔ جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے جہاں اس قانون کو سراسر امتیاز اور تعصب پر مبنی قرار دیا اور اس کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے، وہیں جمعیۃ کے دوسرے گروپ کے سربراہ مولانا محمود اسعد مدنی نے بھی اس کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو یو سی سی منظور نہیں ہے۔
ایک پریس ریلیز کے مطابق، جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے اس قانون کے آئینی و قانونی پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد اعلان کیا کہنینی تال ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں میں ایک ساتھ اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا۔ اتراکھنڈ سرکار کے اس امتیازی فیصلے پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے اپنے شدیدردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو کیونکہ مسلمان ہر چیزسے سمجھوتہ کر سکتا ہے اپنی شریعت سے ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈمیں یکساں سول کوڈ کا جو قانون نافذ ہوا ہے اس میں درج فہرست قبائل کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ۳۶۶؍کے باب ۲۵؍کی ذیلی دفعہ۳۴۲؍کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے اوریہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ۲۱؍کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔
مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتاہے توآئین کی دفعہ۲۶۔ ۲۵؍کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس طرح دیکھاجائے تویکساں سول کوڈبنیادی حقوق کی نفی کرتاہے۔ اگر یہ یکساں سول کوڈہے توپھر شہریوں کے درمیان یہ امتیاز کیوں ؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری قانونی ٹیم اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے تکیثری ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے اعتقادات اورمذہبی ریت اور رواج پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہیں، وہاں آج یکساں سول کوڈکا نفاذ آئین میں شہریوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولر آئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کاہے، کیونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور دستور میں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لئے یکساں سول کوڈ مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی یکجہتی اورسالمیت کیلئے بھی یہ نقصاندہ ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ یکساں سول کوڈکے نفاذکیلئے دفعہ ۴۴؍ کو پیش کیاجاتا ہے اورکہا جاتاہے کہ یکساں سول کوڈکی بات توآئین میں کہی گئی ہے جبکہ دفعہ۴۴؍رہنمااصول میں نہیں ہے بلکہ ایک مشورہ ہے، لیکن آئین کی ہی دفعہ۲۶۔ ۲۵؍ اور ۲۹؍ کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند (م) کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اتراکھنڈ میں نافذکردہ یونیفارم سول کوڈ مسلمانوں کو ہرگز منظور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ فریق بالخصوص مسلم اقلیت کے موقف کونظر انداز کرکے اس قانون کا نفاذ انصاف دشمنی کا مظہر ہے۔ لاء کمیشن آ ف انڈیا کے طلب کردہ عوامی مشوروں میں یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ ملک کی اکثریت اس طرح کے کوڈ کو منظور نہیں کرتی۔
آپ کا تبصرہ