حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے کانپور میں اپنی دو روزہ جنرل باڈی میٹنگ کے دوران مختلف سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی 30 مسلم خواتین کو رکنیت فراہم کی ہے اور تین خواتین کو ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران کے طور پر مقرر کیا ہے۔ اسے مایہ ناز علما کے زیر انتظام ہندوستان کی اعلیٰ اسلامی تنظیم میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
نو منتخب خواتین ممبران کے پاس کوئی مذہبی القاب یا مدرسہ کی ڈگریاں نہیں ہیں لیکن ان کے پاس شرعی قوانین کے مطابق معاشرے کی خدمت کرنے کا تجربہ ہے۔ اے آئی ایم پی ایل بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا، ''حیدرآباد سے ڈاکٹر اسماء زہرا ایک خیراتی اسپتال چلاتی ہیں، لکھنؤ کی ڈاکٹر نگہت پروین ایک ماہر تعلیم ہیں، جوکہ اتر پردیش میں اسکول اور مدارس چلاتی ہیں اور دہلی کی ایک سماجی کارکن عطیہ پروین کو ایگزیکٹو کمیٹی کی مقرر کیا گیا ہے۔
مولانا خالد نے کہا کہ ملک بھر سے مسلم خواتین کے ناموں کی سفارش کی گئی تھی اور بورڈ نے ان خواتین کو نامزد کیا ہے جو قابل ہیں اور سماجی شعبوں میں کام کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔
اے آئی ایم پی ایل بی کی جانب سے سماجی یا خاندانی مسائل سے نمٹنے میں مسلم خواتین کی مدد کے لیے ایک خواتین ہیلپ لائن بھی چلائی جا رہی ہے، مسلم پرسنل لاء نے ایک ہی نشست میں تین طلاق دینے، جہیز کے چلن، شادیوں میں اسراف اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے خصوصی پینل تشکیل دیئے ہیں۔
خیال رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دو روزہ اجلاس اتر پردیش کے کانپور میں 21 نومبر کو اختتام پذیر ہوا جس میں کئی اہم فیصلے لیے گئے۔ اس اجلاس میں جہاں مولانا رابع حسنی ندوی کو چھٹی مرتبہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا گیا، وہیں یکساں سول کوڈ، جبراً مذہب تبدیلی، سی اے اے، موب لنچنگ اور دیگر اہم ایشوز پر غور و خوض بھی ہوا۔ ایسی صورت میں جب کہ مرکزی حکومت نے متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لے لیا ہے، شہریت ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کی واپسی کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ہے۔ اس تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اپنی آواز بلند کی ہے۔ اس اجلاس میں 11 اہم قرارداد پاس ہوئی ہیں، جن میں سی اے اے واپسی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔