۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
ماسٹر رونق علی

حوزہ/ مرحوم ماسٹر رونق علی جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے درس گاہ اسلامی سے با عزو شرف سبکدوش ہوئے آپ رامپور سمیت کئی اضلاع کے امیر جماعت اسلامی رہے۔ ان میں درس و تدریس دینے کا بہترین ملکہ تھا اور ہمیشہ اپنے محبین کو سچ کی تلقین اور حق بات کہنے کی ہدایات فرماتے رہتے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ممبر آف آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ اتر پردیش لکھنؤ و امام الجماعت مسجد شیعہ و امام باڑہ قلعہ شہر رام پور سیّد محمد زمان باقری نے رام پور ایک علمی،ادبی، روحانی اور سماجی شخصیت جناب ماسٹر رونق علی کے انتقال پرملال پر افسوس کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے:

ماسٹر رونق علی جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے دل نہایت رنجیدہ ہے۔ ایک روشن فکر اور وسیع المشرب انسان تھے بلکہ یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہ ہوگا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اتوار کی صبح تقریباً ساڑھے دس بجے رام پور کا ایک علمی،ادبی، روحانی اور سماجی چراغ گل ہو گیا۔ آپ بدایوں میں پیدا ہوئے ماسٹر رونق علی ۶۵۹۱  ؁ء میں اس وقت کی عالمی دانش گاہ مرکزی درس گاہ اسلامی رامپور میں بطور ریاضی کے استاد تقرر پائے،  جس کے بعد سے یہیں مقیم ہو گئے تھے۔ ۶۵۹۱  ؁ء سے پہلے ہی وہ جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے درس گاہ اسلامی سے با عزو شرف سبکدوش ہوئے ماسٹررونق علی رامپور سمیت کئی اضلاع کے امیر جماعت اسلامی رہے۔ ان میں درس و تدریس دینے کا  بہترین ملکہ تھا اور ہمیشہ اپنے محبین کو سچ کی تلقین اور حق بات کہنے کی ہدایات فرماتے رہتے تھے۔
”فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا                                              مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ“

آپ جب جماعت اسلامی کے امیر ہوئے تب انہوں نے بیوہ خواتین کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا تھا اور بچوں کی تعلیم کے لئے الگ سے وظائف جاری کرائے جس سے بڑی تعداد میں طلبہء و طالبات بحر علم سے سیر و سیراب ہوئے ان کے درِ دولت پر جب بھی کوئی حاضر ہوا تو محروم نہیں پلٹا۔ یہی نہیں بلکہ دینی خدمات اور تبلیغ دین سے انسان کی حیات دوام کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت وقار کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور وہ اسے انمول بنا دیتی ہے۔ جیسے کہ امیر المومینین علیہ السلام کا ارشاد ہے -”ہر انسان کی قدر و قیمت اور اہمیت اس کے علم اور فن کے مطابق ہوتی ہے۔“  ۰۸ سالہ زندگی میں بہت نشیب و فراز بھی سامنے آئے ان کی اہلیہ محترمہ کا پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا جب کہ چند سال قبل جواں سال صاحب زادے ڈاکٹر محمد طیّب بھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہی داغ مفارقت دے گئے تھے ان کی بے شمار سماجی، دینی اور علمی خدمات ہیں جن کو رامپور کی عوام کبھی فراموش نہیں کر سکتی ہے۔ آپ اچھے عالم بھی تھے اور ایک اچھے انسان بھی  بقول مرزا غالب:-
 ”گرچہ دشوارہے ہر کا م کاآساں ہونا                                         ٘آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا“

آپ چھوٹوں سے مہربانی و شفقت اور بزرگوں کا بے پناہ ادب و احترام فرمایا کرتے تھے یہ بھی آپ کی زندگی کا ایک انمول نمونہ تھا آپ کے حسن اخلاق میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ بلا تفریق مذہب و ملّت تمام مکتبہ فکر کے افراد سے بغیر جھجک ملا کرتے تھے دوسرے افراد بھی آپ کی تعظیم و توقیر اور پزیرائی میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں رکھتے تھے۔ آپ کا یہ عمل رہتی دنیا تک قایم رہیگا۔ آپ نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے زرّین قرآن سینٹر کا قیام کراکر اپنی بڑی بیٹی اسماء زرّین صالحاتی سے قرآن کی تعلیم دلایا کرتے تھے۔ آپ کی نماز جنازہ بعد نماز عشاء مسجد جھبو خاں میں ادا کی گئی اور وہی نزدیک متصل مسجد قبرستان میں آپ کو سپردخاک کر دیا گیا۔ بڑی تعداد میں سماجی، سیاسی، ادبی علمی شخصیات نے آپ کے جنازے میں شرکت کی اور بندہ حقیر بھی آپ کی تدفین میں شریک رہا۔ اور اس رنج ملال کے موقع پر آپ کے فرزندان کو تعزیت پیش کی اور آپ کے دولت کدے پر پہنچ کر آخر میں مومنین کی موجودگی میں اجتماعی طور پر دعائیہ کلمات مرحوم کی مغفرت کے لئے اور ان کے درجات بلندی کے لئے بارگاہ ایزدی میں ادا کرائے۔

میں ممبر آف آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ اتر پردیش لکھنؤ و امام الجماعت مسجد شیعہ و امام باڑہ قلعہ شہر رام پور سیّد محمد زمان باقری جملہ اہل خانوادہ کو آپ کے انتقال پر ملال پر تعزیت پیش کرتا ہوں اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمانے کی بارگاہ خدا وندی میں دعا کرتا ہوں کہ ان کو خدا وندِ متعال صبر جمیل عطا فرمائے اورمرحوم کی مغفرت فرمائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .