حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کی عظیم درسگاہ جامعہ ناظميہ لكهنؤ کے سربراہ آیت اللہ سید حمید الحسن صاحب نے لکھنؤ اتر پردیش کے محکمہ پولیس کے سربراہ کا حالیہ بیان پر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی بی لکھنؤ کے رہنما ہدایات میں محرم کے لئے جو الفاظ ہیں وہ بیحد فسوسناک اور قابل مذمت ہیں ۔جس معاہدہ کو لے کر ان کے یہ رہنما ہدایات ہیں ان کی اطلاع کے لئے اتنا لکھنا بہتر ہوگا کہ ہمارے ملک کے سابق محبوب وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے اس کا تذکرہ ایران کی پارلیمنٹ میں فخر سے کیا تھا ۔ اور جس محرم کے لئے یہ بیان ہے ہمارے موجودہ قابل احترام وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی نے ٹھیک تین سال پہلے اندور میں ایک ماتی جلسہ میں دیر تک شرکت کرتے ہوئے اس کی اہمیت کا احساس دلایا تھا ۔
اور ہمارے محترم وزیر دفاع تو خود کربلا جا چکے ہیں ۔ اس دیش کے تمام عظیم رہنما کربلا اور اس سے متعلق تمام روایات کو قابل احترام سمجھتے رہے ہیں۔ ہمارے عزیز بھائی شہری مراری باپو جنہیں تمام دنیا میں جانا جاتا ہے خود کو امام حسین علیہ السلام کا بھكت کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ ہمارے اتر پردیش کے محترم وزیر اعلی جناب یوگی آدتیہ ناتھ محرم سے متعلق تمام حالات پرخود گہری نظر رکھتے ہیں ۔
امید ہے ایسے اہم عہدے پر رہتے ہوئے اتر پردیش کے ڈی جی پی اسے سمجھیں گے اپنے ان الفاظ پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کریں گے جو ان کے رہنما ہدایات میں ہیں اور جن سے دنیا کے کروڑوں ان لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور کربلا کے واقعہ شہادت ( یزید اور یزیدی فوج کی بربریت کو یاد کر کے غم مناتے ہیں ان کے بیان کے سبب تمام دنیا میں ہمارے عزیز وطن کی بدنامی ہوگی ۔
کربلا کی المناک تاریخ کو ایک ہزار تین سو اسی ( 1380 سال ہورہے ہیں۔ لکھنؤ بھی تمام دنیا کے عزاداروں کے ساتھ اس غم میں شریک ہے محترم مکل گوئل صاحب سے اتنا کہیں گے وہ اپنے سابق ڈی جی پی اتر پردیش جناب شری رام ارون صاحب کی کتاب ” کرفیو ٹو کرفیو" منگوالیں اسے دیکھ لیں تو وہ تمام تاریخ آپ کے سامنے آجائے گی جو کی اس عزاداری سے تعلق ہے جس کے لئے آپ نے یہ ہدایات جاری کی ہیں ۔ تمام دنیا کے تہواروں میں محرم آنسوؤں کا تہوار ہے غم و الم کی یادگار ہے ۔ نوحہ و ماتم کی تاریخ ہے ۔ خوشی اور غم میں کتنا فرق ہے ؟ اسے سمجھیں ۔