حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قرآن مجید سے بعض آیات کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والا وسیم رضوی ایک بار پھر یو پی کے شیعہ وقف بورڈ کا ممبر بننے میں کامیاب ہو گیا۔ جب سے خبر عامم ہوئی ہے اتر پردیش ہی نہیں بلکہ پورے ہندستان کے شیعہ حلقوں میں زبردست رد عمل دیکھا جارہا ہے۔ وسیم رضوی کو کامیاب بنانے والے21 متولیوں کے خلاف شیعہ قوم میں زبردست غم و غصہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان متولیوں کے خلاف سماجی بائکاٹ کی کال دیدی گئی ہے یا ان کا بائکاٹ شروع کردیا گیا ہے۔ان متولیوں کو انجمنوں کے عہدوں سے برطرف کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وسیم حامی متولیوں کے خلاف لوگ بپھرے ہوئے انداز میں ہر قسم کے تبصرے کر رہے ہیں۔
اس بیچ فخری میرٹھی وسیم رضوی کو ووٹ دینے کے الزام کی تردید کر رہے ہیں۔ انہوں نے گردش کر رہی اس فہرست کو ناقابل اعتبار بتایا ہے جس میں یہ ظاہر کیا گیا ہیکہ کس ممبر نے کس کے حق میں وووٹ دیا۔ مولانا کلب جواد واضح کرچکے ہیں کہ فخری میرٹھی نے انکے امیدوار کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ فخری میرٹھی یہ تو کہتے ہیں کہ وسیم کے حق میں انہوں نے ووٹ نہیں دیا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے پھر کس کو ووٹ دیا۔ یہ بات تو ثابت ہیکہ وہ وہاں موجود تھے اور انہوں نے ووٹ دیا ہے۔ میرٹھ کی ایک انجمن نے فخری میرٹھی کو عہدہ صدارت اور شاعر کے عہدے سے ہٹانے کا اعلان کردیا ہے۔
قرآن کے خلاف محاذ کھولنے کے بعد سے وسیم رضوی کے خلاف نہ صرف یو پی بلکہ پورے ملک میں شیعہ اور سنی مسلمانوں میں زبردست غصہ اور ناراضگی ہے۔ بعض سنی عناصر وسیم رضوی کے بہانے شیعہ عقائد پر نکتہ چینی کرنے لگے ہیں۔ جبکہ شیعہ علما دانشوروں اور عامم افراد کی طرف سے یہ کہکر دامن بچانے کی کوشش کی گئی کہ شیعہ قوم وسیم کے خلاف ہے اور قرآن کے بارے میں اسکے ناپاک ارادے اسکے نجی ہیں۔ لیکن شیعہ وقف بورڈ کی ممبری کے لئے اتر پردیش کے 21 شیعہ اوقاف کے ذمہ داروں کے ذریعے اسکی کھلم کھلا حمایت سے شیعہ سماج خود کو ٹھگا ہوا سا محسوس کررہا ہے۔ اسے اپنی صفائی میں کہنے کے لئے کچھ سوجھ نہیں رہا ہے۔ یہ نہیں ہیکہ وقف بورڈ کی ممبر شپ کے چناؤ میں وسیم رضوی کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش نہیں کی گئی باقاعدہ علما اور انجمنوں کی جانب سے اس سلسلے میں مہم چلائی گئی لیکن وہ سب ناکام ثابت ہوئی۔ سننے میں تو یہ بھی آرہا ہیکہ وسیم کے حق میں ووٹ دینے کے لئے موٹی رقمیں تقسیم کی گئیں۔ جن 21 متولیوں نے وسیم کو ووٹ دیا ہے ان سب کو متولی وسیم نے ہی بنایا تھا۔ غالب گمان یہ ہیکہ ان متولیوں کو یہ اندیشہ رہا ہوگا کہ نیا چئیر مین کہیں انکی جگہ کسی اور کو متولی نہ مقرر کردے۔
شیعہ وقف بورڈ کے چیئر مین کے انتخابی عمل کے دوران وقف بورڈ سے دو ارکان کا انتتخاب ہونا تھا۔ ابھی ریاستی حکومت اور اودھ بار ایسو سی ایشن کو اپنے ارکان نامزد کرنا ہیں۔ جو مل کر وقف بورڈ کے نئے چیئر میں کا انتخاب کریں گے۔ دو ایم ایل اے یا دو ایم ایل سی بھی بورڈ کی رکنیت کے لئے نامزد کئے جائیں گے۔
مولانا کلب جواد کے امیدوار ضیا مشرف کے حق میں جن متولیوں نے ووٹ دئے انکے نام یہ ہیں؛
مولانا کلب جواد متولی وقف غفراں مآب لکھنؤ، تقی مسجد الہ آباد کے مہدی رضا ، کربلا منشی فضل حسن اناؤ کے مشرف حسین رضوی ، امام باڑہ میر سعادت علی مراد آباد کے گلریز حیدر رضوی، میر نیاز علی وقف آگرہ کے ظفر رضوی اور مقبرہ بہو بیگم صاحبہ فیض آباد کے اشفاق حسین عرف ضیا۔
جن 21 شیعہ اوقاف کے متولیوں کے بارے میں کہا جارہا ہیکہ انہوں نے وسیم رضوی اور اسکے ساتھی فیضی کو ووٹ دیا وہ یہ ہیں؛
ان میں لکھنؤ کےعبقاتی خاندان کے مولانا آغا روحی کے بھائی حسین ناصرسعید انصر بھی شامل ہیں۔ حسین ناصر سعید شہید ثالث آگرہ کے متولی ہیں۔۔ درگاہ عالیہ نجف ہند جوگی پورہ کے سید مجاہد حسین نقوی، داراب علی خاں لکھنؤ کے احمد عباس، وقف منصبیہ میرٹھ کے فخری میرٹھی، بنارس کے امام باڑہ کلاں کے سجاد علی، بنارس کے امام باڑہ بی رجی کے اعجاز حسین،قبرستان سادات آگرہ کے محمد احمد، روضہ جناب قاسم امبیڈکر نگر کے علمدار حسین، بریلی کے وقف محمد حسین خاں کے محمد عسکری، لکھنؤ کے وقف مرتضوی کے ذکی حسین، درگاہ حضرت عباس لکھنؤ کے ابن حسن عابدی، کربلا امداد حسین خاں کے اسد علی خاں، وقف نواب شہنشاہ لکھنؤ کے سید عاصم رضوی، امام باڑہ اکرام اللہ خاں کی نجمہ حسن، نواب سلطان محل امام باڑہ لکھنؤ کے عباس امیر، مسجد املی والی لکھنؤ کے منیر عالم، سجادیہ قدیم و جدید لکھنؤ کے محمد جواد علی، کربلا تالکٹورہ لکھنؤ کے سید فیضی، اصغر علی امام باڑہ سہارنپور کے اطہر عباس زیدی، وقف مسجد دریا والی لکھنؤ کے منصور عالم وقف داد علی امروہا کے ولی حیدر ولی اور خود وسیم رضوی جو کربلا ملکہ گنج کے متولی ہیں۔
جن متولیوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا وہ یہ ہیں۔ امام باڑہ آغا باقر کی کشور جہاں، ولایت علی وقف لکھنؤ کے ریاست علی، وقف نورالحسن امروہا کے ندیم ہادی رضا ، مسجد حسن رضا خان فیض آباد کے مرزا شہاب شاہ اور حسینیہ سجادیہ وقف اناؤ کے گوہر عالم۔ ان متولیوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیکر در پردہ طور پر وسیم کا ہی ساتھ دیا۔
وقف حیدری بی بی اعظم گڑھ کے عزادار حسین اور وقف ہاجرہ بیگم اور ہادی بیگم کانپور کے امتیاز حسین کے ووٹ invalid قرار دئے گئے لیکن ان دونوں نے بھی وسیم کے ہی حق میں ووٹ دیا تھا۔ یعنی اگر یہ دو ووٹ بھی ویلڈ ہوتے تو وسیم اور فیضی کو 23-23 ووٹ حاصل ہوتے۔
جن21 متولیوں نے وسیم کے حق میں ووٹ دیا ان میں حسین ناصر سعید انصر لکھنوی، منیر لکھنوی۔ ذکی حسن ذکی بھارتی، فخری میرٹھی اور ولی حیدر ولی امروہوی شعرائے اہل بیت کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں۔ ان شعرا کو مقاصدوں اور منقبتی محفلوں میں مدعو نہیں کرنے کے مطالبات بھی زور و شور سے اٹھ رہے ہیں۔ اثار و قرائن سے یہ اندازہ ہوتا ہیکہ وسیم رضوی اک بار پھر شیعہ وقف بورڈ کا چئیر میں بننے میں کامیاب ہو جائے گا۔ وسیم رضوی کو اس وقت آر ایس ایس کی بھر پور پشت پناہی حاصل ہے۔ ریاستی سرکار کو جو ارکان نامزد کرنے ہیں وہ یقینی طور پر وسیم کی ہی حمایت کریں گے۔ وسیم رضوی سے آر ایس ایس کو ابھی بہت سے کام لینا ہیں ان میں دو اہم کام ہیں سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کرنا اور خود شیعہ قوم کے اندر اختلافات پیدا کرنا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔