حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ ۹ نومبر ۲۰۲۱ شہر لکھنؤ میں علماء،خطباء اور ذاکرین کے ایک جلسہ میں وسیم رشدی کی توہین رسالت کے سلسلہ سے شدید غم و غصہ کے اظہار کے ساتھ طے پایا کہ قوم و ملت کو اس کی اوچھی حرکت سے مطلع کیا جائے اور اس کی مسلسل مذہب اسلام و قرآن مجید اور اب جب کہ رسول اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالہ سے بڑھتی ہرزہ سرائی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔سکوت توڑنے نیز اپنے فرائض کی انجام دہی کی جانب متوجہ ہونے پر تاکید کی گئی۔
اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں کٹپتھلی بن چکا وسیم سیاسی مصالح اور ذاتی مفادات کے علاوہ ہندو مسلم فرقہ واریت کو ہوا دے کر ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔
چونکہ توہین رسالت کا مسئلہ تمام مسلمانوں اور حق پرست انسانوں سے وابستہ ہے لہذا تمام لوگوں کو یک زبان ہو کر اس شرور اور شیطنت پسند عنصر کے خلاف احتجاج کی ضرورت ہے۔
جلسہ میں حاضرین نے متفقہ طور پر بیان کیا کہ ہمیں حکومت کے اس رویہ پر تعجب ہے کہ جس شخص کو جیل کی سلاخوں کے پیچہے ہونا چاہیۓ اسے تحفظ دیا جا رہا ہے۔اگر حکومت اب بھی ایکشن اگر حکومت اس کے خلاف ایکشن نہیں لیتی تو ہم اسے بھی شریک جرم سمجھیں گے۔ہمارا حکومت ہند خصوصا اترپردیش کی حکومت سے آئین ہند کے مطابق وسیم اور اس جیسے عناصر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ ہے۔
حاضرین جلسہ نے متحدہ طور پر اس جیسے اوچھے مغالطہ سے بھرپور تہمت و افترا سے بھرے بیان کی شدت سے مذمت کی گئی۔ساتھ ہے حق پسند افراد سے اس کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔
قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا اور آخری جلسہ احتجاج نہیں تھا بلکہ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وسیم جیسے جاہل و شر پسند پر نکیل نہ کسی جائے۔
مذکورہ جلسہ میں مولانا سید تنویر عباس،مولانا سید نقی عسکری،مولانا سید مشاہد عالم رضوی ہلوری،مولانا ارشد رضا عرشی،مولانا سید اصطفی رضا،مولانا اختر عباس جون،مولانا سید سعید الحسن نقوی،مولانا سید محمد حسنین باقری،مولانا سید گلزار حسین جعفری،مولانا صابر علی عمرانی،مولانا محمد ثقلین باقری،مولانا سید فیض عباس مشہدی اور مولانا سید حیدر عباس رضوی وغیرہ شریک رہے۔