۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
جماعت اسلامی ہند

حوزہ,ملک کے عوام اور اداروں سے تو حسابات کے معاملے میں حکومت شفافیت کا مطالبہ کرتی ہے جب کہ سیاسی جماعتیں اس شرط سے آزاد ہیں۔ اس طرح کا رویہ ہماری جمہوریت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہمارے ملک میں الیکشن پردیگر جمہوری ممالک کے بہ نسبت غیر معمولی خرچ کیا جاتا ہے۔ سینٹر فور میڈیا اسٹڈیز (Centre For Media Studies) کا مطالعہ بتاتا ہے کہ 2019 میں منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات کے دوران 55 ہزار کروڑ روپیے خرچ کیے گیے۔ اس کا تقریباً نصف حصہ برسر اقتدار پارٹی نے کیا تھا۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر انجینیئر محمد سلیم نے کیا۔ وہ ئی دہلی کے اوکھلا علاقہ کے ابوالفضل انکلیو میں واقع جماعت اسلامی ہند (Jamaat-e-Islami Hind) کے ہیڈ کوارٹرس میں ماہانہ پریس کانفرنس میں خطاب کررہے تھے۔ پروفیسر انجینیئر محمد سلیم نے کہا کہ الیکشن بونڈ پر سخت نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے عوام اور اداروں سے تو حسابات کے معاملے میں حکومت شفافیت کا مطالبہ کرتی ہے جب کہ سیاسی جماعتیں اس شرط سے آزاد ہیں۔ اس طرح کا رویہ ہماری جمہوریت کو کھوکھلا کر دتیا ہے اور الیکشن کے نظام کو پوری طرح فاسد بنا دیتا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن آف انڈیا اور سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے۔ پارلیمنٹ کچھ ایسا قانون بنائے جس کے ذریعے الیکشن بونڈ (Election Bond) میں شفافیت لائی جا سکے۔ سیاسی پارٹیوں کے حسابات کو عوام کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

پروفیسرانجینیئر محمد سلیم صاحب نے اس بات پر بھی حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ اگر کوئی دلت، اسلام یا عیسائیت قبول کرتا ہے تو اسے درج فہرست ذاتوں (SC) کی درجہ بندی سے خارج نہیں کیا جانا چاہیے، کیوں کہ کسی شخص کے محض عقیدہ بدلنے سے اس کی معاشی وسماجی کیفیت بہتر نہیں ہو سکتی۔ اس اہم مسئلے کی طرف رنگاناتھ کمیش کی رپورٹ نے بھی اپنی رائے دی تھی کہ اگر کوئی درجہ فہرست ذاتوں سے متعلق فرد اسلام یا عیسائیت قبول کرتا ہے تو اسے ریزرویشن (Reservation) کے تحفظ سے مبرہ نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ اقدار دستور ہند سے ماخوذ ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف سیاسی افراد کی جانب سے نفرتی بیان بازی پر سخت نوٹس لیا ہے۔ اس پر پروفیسر انجینیئرمحمد سلیم صاحب نے کہا کہ نفرتی بیانات اب اس درجہ عام کے ہو چکے ہیں کہ ہماری عدالت عظمٰی کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑ رہا ہے۔ موصوف نے ملک کی سیاسی جماعتوں کو متوجہ کیا ہے کہ ووٹ بینک (Vote Bank) کی سیاست کے لیے نفرتی بیان بازی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی نفسیات انتہائی تشویش ناک ہے جو سوسائٹی کی تارپود بکھیر دے گی۔ اس طرح کا ماحول کسی بھی ملک کے لیے بہتر نہیں ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں کیرلہ ہائی کورٹ کے فیصلے بابت خلع ایک سوال کے جواب میں پروفیسر انجینیئرمحمد سلیم صاحب نے کہا کہ"بعض ججوں کی جانب سے مذہبی تعلیمات، شریعت اور مذہبی تعلیمات کی توضیح بیان کرنے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ یہ امر فیصلوں پرمنفی اثرات ڈال رہا ہے۔ اس لیے کہ ججوں کو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بنائے گئے قوانین کی تشریح بیان کرنے کا حق حاصل ہے نہ کہ مذہبی معاملات کی تشریح کا۔ اس طرح کے عمل سے معززججوں کو پرہیز کرنا چاہیے۔ ملک کے تعلیمی نظام کا قومی تعلیمی پالیسی۔ 2020 اور اس کی روشنی میں تیار کیے گیے این سی ایف کا جائزہ پیش کرتے ہوئے مرکزی تعلیمی بورڈ کے سکریٹری سید تنویر احمد نے کہا کہ NCF کو حکومت ہند نے جاری کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند جہاں اس کا خیر مقدم کرتی ہے وہیں اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے سید تنویر احمد نے کہا کہ این سی ایف تمام کلچر کو فروغ دینے کی بات تو کرتا ہے لیکن عملاً اس سلسلے میں اقدامات بہت کم ہوئے ہیں جو بھی ہوئے ہیں وہ یہاں کی اکثریت کو لبھانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ موصوف نے یہ بھی کہا کہ طلبہ میں امن کی تعلیم اور اخلاقی اقدار کی تعلیم پر زوردیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 سے قبل والی تمام پالیسیوں میں اقدار کی تعلیم کے ذیل میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ موصوف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت ہند ایک جانب پری پرائمری اسکول کے نصاب کی تدوین کا کام کررہی ہے جب کہ بیش تر سرکاری مدارس میں پری پرائمری کی تعلیم نہیں ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے قائم کردہ آنگن واڑی اور بال واڑی نظام بری طرح متاثر ہے۔

انھوں نے آخر میں کہا ہے کہ اب 90 فی صد پری پرائمری کی تعلیم خانگی اسکولوں میں دی جاتی ہے جن کی اکثریت تجارتی اسکولوں کی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے میں مرکزی اور ریاستی بجٹ میں اضافہ کرے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .