۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
News ID: 384827
17 اکتوبر 2022 - 14:30
ہندوستان میں حجاب تنازعہ

حوزہ/ جو لوگ حجاب کی مخالفت کررہے ہیں ان کے گھروں سے تو پردہ بہت پہلے رخصت ہوچکا تھا ،اس لئے انہیں ہنگامہ کرنے کی ضرورت نہیں۔آیا یہی سیکولر ازم اور جمہوریت ہے کہ حجاب پسند کرنے والی خواتین کو بے حجابی پر مجبور کیا جائے ؟

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| حجاب کا مسئلہ عالمی سطح پر زیر بحث ہے۔اسلام دشمن عناصر کے لئے یہ موقع غنیمت سے کم نہیں۔ اس لئے بڑے پیمانے پر اسلامی تعلیمات کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں۔حقوق خواتین کے بہانے قرآن مجید کے دستور کونشانہ بنایا جارہاہے۔خاص طورپر ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد زیادہ واویلا مچایا گیا۔کہاجارہاہے کہ جب ایک اسلامی ملک میں خواتین حجاب کو برداشت نہیں کرپارہی ہیں تو پھر ہندوستان اور دیگر سیکولر ملکوں میں حجاب پہننے پر اس قدر اصرار کیوں؟اس سیاست پر مسلمان بھی دو ٹکڑوں میں بٹے ہوئے نظر آرہے ہیں۔مسلمانوں کا ایک طبقہ حجاب کازبردست حامی ہے۔دوسرا طبقہ جو خود کو لبرل اور سیکولر ظاہر کرتاہے حجاب کی مخالفت کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہے۔پہلی بات تویہ کہ سیکولر اور لبرل ہونے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ شرعی معاملات میں مداخلت کی جائے۔

حجاب شرعی قانون سے الگ پسندو ناپسند کا مسئلہ بھی ہے۔غیر اسلامی ممالک ہی نہیں اسلامی ممالک میں بھی حجاب کے لئے کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔البتہ اگر کسی ملک میں اسلامی قانون نافذ ہے اور حجاب ان کے دستور اساسی کا بنیادی جزو ہے تو اس کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح غیر اسلامی ممالک میں حجاب پر پابندی دستور اساسی کا حصہ بنتی جارہی ہے اور لوگ اس کی اطاعت کوماڈرن ازم کے نام پر قبول کررہے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو مسلمان حجاب مخالف ہیں انہیں کیسے حجاب کے لئے مجبور کیا جاسکتاہے ،لیکن وہ اپنی بے حجابی کو اسلام کے نام پر فروغ نہ دیں۔جب کوئی کام اسلام کے نام پر کیا جاتاہے تو پھر اسلامی تعلیمات اور مسلمان نشانے پر ہوتے ہیں۔

جو لوگ حجاب کی مخالفت کررہے ہیں ان کے گھروں سے تو پردہ بہت پہلے رخصت ہوچکا تھا ،اس لئے انہیں ہنگامہ کرنے کی ضرورت نہیں۔آیا یہی سیکولر ازم اور جمہوریت ہے کہ حجاب پسند کرنے والی خواتین کو بے حجابی پر مجبور کیا جائے ؟سپریم کورٹ میں جسٹس سدھانشو دھولیہ نے بھی حجاب پر پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہا کہ درخواست گذاراگر حجاب پہننا چاہتی ہیں ،تو کیا جمہوریت میں اتنا مطالبہ بہت زیادہ ہے ؟یہ کیسے امن عامہ ،اخلاقیات اور شائستگی کے خلاف ہے ؟ان کا تبصرہ تمام حجاب مخالفوں کے لئے ایک سبق ہے۔

ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد جس طرح استعماری طاقتوں نے ایران میں تشدد کو ہوادی ،اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مہسا امینی کی موت کے بہانے ایرانی نظام کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔چند لڑکیاں جنہوں نے حجاب اور ایرانی نظام کی مخالفت میں اپنے بال کاٹے ،ان میں سے زیادہ تر ایران میں موجود نہیں تھیں۔یعنی یوروپ میں رہ کر بے حجاب خواتین اپنے سرکے بال کاٹ کر کیا پیغام دینا چاہتی تھیں ،یہ تو باآسانی سمجھا جاسکتاہے۔وہ طبقہ جو حجاب مخالف ہے اس نے بال کاٹ کر احتجاج کرنے والی لڑکیوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر حجاب مخالف تبصرے کے ساتھ خوب وائرل کیں۔یہ سب کچھ فیمینزم کے نام پر ہوا ،جبکہ یہ طبقہ بخوبی جانتاہے کہ فیمنزم کی تحریک اسلام مخالفت طاقتوں کا ایجنڈہ ہے۔عورت کو ہمیشہ اس کی ترقی کا خواب دکھاکر فریب دیا گیا۔یہاں تک ماڈرن کلچر کے نام پر اس کے بدن سے کپڑے تک نوچ لئے گئے۔سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو اسلامی قانون سے اس قدر نفرت ہے تو پھر مسلمان ہونے کا مطلب کیاہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک آدھ ناول لکھ کر یا مغربی ادب کا ترجمہ کرکے خود کو عظیم دانشور منواناچاہتے ہیں ،خیر ہمیں ان کی ادبی و سماجی حیثیت سے کوئی بحث بھی نہیں ہے ،ہمارا سوال بس اتنا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو اسلامی قانون پسند نہیں ہے تو اس کے لئے دیگر مذاہب کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔قرآن مجید باضابطہ اعلان کررہاہے ’’لااکراہ فی الدین ‘‘۔دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یعنی جبر کے ساتھ نہ حجاب اُڑھایا جاسکتاہے اور نہ جبر کے ساتھ حجاب اتروایا جاسکتاہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ جن ممالک میں حجاب دستور کا اساسی جزوہے ان ملکوں میں سرعام بے حجابی کی ترویج کرنا ،یقیناً قابل سزا جرم ہے۔قانون کسی کی ذاتی زندگی میں خلل ڈالنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اجتماعی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے ہوتاہے۔اگر کوئی اپنے گھر سے نکل کر معاشرہ میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتاہے تو اسے ملک کے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔

وائٹ وائن سے اپنے دن کا آغاز کرنے والے مسلمان اسلامی لاء کے تئیں فکر مند نظر آتے ہیں،یہ تعجب خیز ہے۔یہ اپنی ذات کے ساتھ اسلامی معاشر ہ کا بھی تمسخر ہے۔اگر آپ کو اسلامی قانون اور مسلم خواتین کی اس قدر فکر ہے تو پھر ان کے لئے لایحۂ عمل کیوں ترتیب نہیں دیا جاتا۔وقت پڑتے ہی سب سے پہلے جو طبقہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپالیتاہے وہ یہی نام نہاد دانشور طبقہ ہے۔جب یہ طبقہ یونیورسٹیوں ،کالجوں اور دیگر سرکاری شعبوں میں برسر ملازمت ہوتاہے تواسے قطعاً ملت کی فکر نہیں ہوتی۔یہ طبقہ کس طرح مسلم لڑکے اور لڑکیوں کا استحصال کرتاہے یہ حقیقت بھی اب مخفی نہیں رہ گئی ہے۔البتہ یہ سب کچھ ماڈرن ازم کے نا م پر ہوتاہے۔ریٹائرمنٹ کےبعد وائٹ وائن پیتے ہوئے یہ طبقہ مسلمانوں کی فکر میں ہلکان نظر آتاہے۔ایسے لوگ مذہب اور قوم کو اپنے مفاد کے حصول کا آسان ذریعہ سمجھتے ہیں۔قرآن مجید کی آیات کی من گھڑنت تفسیر کرکے مسلمانوں اور اسلامی نظام پر تنقید کو دانشوری تصور کرتے ہیں۔جبکہ ان کے گھروں میں نہ قرآن مجید کی تعلیم عام ہوتی ہے اور نہ اسلامی تعلیمات سے انہیں کوئی سروکار ہوتاہے۔وہ بس اسلام اور مسلمانوں کو ہدف تنقید بناکر دوسروں کی نگاہوں میں ماڈرن اور اسکالر بننا چاہتے ہیں اور بس!

ہمارے اکثر دانشور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مغرب کی خارجہ پالیسی خراب ہے لیکن ان کا داخلی نظام جمہوری ، سیکولرا و رلبرل ہے۔چونکہ یہ طبقہ مغرب کی ظاہری ترقی اور تمدن سے بہت زیادہ متاثر ہوتاہے اس لئے انہیں اسلامی تمدن میں بہت سی خامیاں نظر آتی ہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اکثرمسلمان ملکوں میں مغربی تمدن رائج ہے اس کے باوجود وہاں کے عوام ذہنی کشمکش اور نفسیاتی خلجان کا شکار ہیں۔مغرب میں آزادی اور سیکولر ازم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اکثر ملکوں میں حجاب پر پابندی عائد ہے۔کیا یہ جمہوریت اور سیکولر ازم ہے کہ حجاب پسند کرنےوالی خواتین کو اس کی اجازت نہ دی جائے ؟فرانس ،آسٹریا،نیدر لینڈ،بلغاریہ اور ڈنمارک جیسے دیگر ملکوں میں حجاب پر مکمل یا جزوی پابندی عائد ہے۔یہ وہ ملک ہیں جو سب سے زیادہ جمہوریت ،سیکولر ازم اور شخص کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے تو حال ہی میں ایک بار پھر چہرے کے نقاب پر پابندی عائدکا اعادہ کیاہے۔ان کے مطابق چہرہ کا نقاب انتہاپسندی اور سیاسی اسلام کا نشان ہے۔اس سے قبل 2011 میں فرانس کی حکومت نے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کردی تھی۔فرانس میں ہی ایک خاتون کو سرپوش کے ساتھ ایک تربیتی کورس کے دوران اسکول میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا ،جس کا بدترین نظارہ ہم نے کرناٹک میں بھی دیکھا۔

اردو داں طبقہ کا تو یہ حال ہے کہ وہ مغرب زدہ تحریکوں اور نظریات کی اتباع کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتاہے۔جبکہ اکثرتحریکوں نے استعمار ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہےاوروہ انہی کے مفاد کے لئے سرگرم عمل رہتی ہیں۔اگر مغربی نظام اس قدر متاثر کن ہے تو پھر وہاں کے عوام سماجی انارکیت اور داخلی کشمکش کا شکار کیوں ہیں ؟ مغرب میں کس قدر آزادیٔ اظہار ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ فلسطین ،یمن ،شام اور عراق میں ہونے والی دہشت گردی پر سب کی زبانوں پر تالے پڑجاتےہیں۔مغرب کا توسیع پسندانہ نظام دنیا کو اپنے زیر نگیں دیکھنا چاہتاہے۔ادب بھی اسی توسیع پسندانہ نظام کے فروغ کا ایک حصہ ہے۔ادب میں جتنے رجحانات اور تحریکیں معرض وجود میں آئی ہیں ان کے پس منظر اور نظریات کوملاحظہ کیا جاسکتاہے۔اکثر تحریکوں کی خاکہ سازی استعماری آلۂ کاروں نے کی ہے۔اس لئے ادب میں ظلم و بربریت پر احتجاجی لے تو نظر آتی ہے مگر استعماری و استکباری نظام کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بہت مدھم نظر آتاہے۔سیکولر اور لبرل ازم کی زد میں بھی مسلمان طبقہ زیادہ ہے کیونکہ ہمارا دانشور طبقہ اپنی تہذیب و ثقافت کے تئیں احساس کمتری کا شکار ہے۔یہ طبقہ اپنے تمدن اور ثقافت سے زیادہ مغربی تمدن اور انگریزی زبان سے مرعوب دکھائی دیتا ہے ،یہی وجہ ہے ہمارے یہاں مغربی نظر یات کی بھرمار ہے اور نظر یہ ساز دانش کا فقدان ہے۔یہ زمانہ جنگ نرم ( سافٹ وار ) کا ہے۔اگر ہم اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ نہیں کریں گے تو نظریاتی جنگ میں اپنے ہی خلاف دشمن کا ہتھیار ثابت ہوں گے۔مسلمان اپنے تشخص کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔مگر یہ تشخص رائج برقعہ نہیں ہوسکتا ،اس سے پہلے حجاب کی صحیح تعریف کو بھی سمجھنا ہوگا۔اس کے لئے علمائے کرام کو حجاب کی صحیح تشخیص اور اس کی مقدار کے بارے میں آگاہی دینا ہوگی۔اکثر مسلمان اس سلسلے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ان کی ذہنی کشمکش کو دورکرنا ہمارے علماء کا اہم فریضہ ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .