۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ڈاکٹر مہدی علی زادہ

حوزہ/ جمہوری اسلامی ایران میں خواتین کے حالات کو ایران کے اساسی قوانین ترقیاتی منصوبے اور دستاویز اور عورتوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کے منشور کے رو سے دیکھنا چاہیئے ایرانی خواتین کے سماج کی چند خصوصیات اور ان کی موجودگی کے شعبوں کا اجمالی طور پر تذکرہ ہوا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر مہدی علی زادہ، سفیر جمہوری اسلامی ایران کے ثقافتی مشیر نئی دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | مرحومہ مھسا امینی کی وفات جمہوری اسلامی ایران اور ملت ایران کے لئےایک نہایت تلخ اور ناگوار واقعہ تھا ۔ حادثہ کے رونما ہوتے ہی پہلی خبر کے ساتھ ملک کے عہدہ داران خصوصا صدر مملکت نے مرحومہ کے گھروالوں سے رابطہ کیا اور ان کی دلجوئی کی اور واقعہ کی فوری تفتیش کا حکم صادر کیا۔ ملک کی پولس اور قانونی ڈاکٹرنے بھی فوری طور پر بڑی تیزی سے تحقیق کا آغاز کیا اور آخر میں اپنی تحقیقات کو سارے ثبوتوں اور دستہ ویز کے ساتھ میڈیا کے سامنے رکھا۔.ان پیش کئے گئے دستاویزوں کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ: مرحومہ مہسا امینی حجاب اسلامی کے قانون کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے پولس کے ذریعہ وہاں لے جائی جاتی ہیں جہاں قانون حجاب کے بارے میں خواتین کو اطلاعات فراہم کی جاتی ہے۔ ان دستاویزات کی بنیاد پر وہاں اس اطلاعاتی جلسہ میں 20 خواتین اور بھی موجود تھیں مگر متاسفانہ وہاں پر محترمہ مہسا امینی کو سکتہ پڑتا ہے اور وہ فوری طور پر ہاسپٹل منتقل کی جاتیں ہیں اور وہاں معالجہ کے دوران دارفانی سے کوچ کر جاتی ہیں.جابجا لگے ہوئے کیمرے کی ویڈیوز کی رو سے اس پورے معاملہ کے دوران کہیں بھی ان سے کسی بھی طرح کی سختی نہیں برتی گئی۔ قانونی ڈاکٹرنے بھی پوسٹمارٹم کی روپوٹ میں یہ اعلان کیا کہ جسم کے کسی بھی حصہ پر زد و کوب کے کوئی نشان نہیں ہیں اور انھیں کسی بھی طرح کی جسمانی تشدد کا شکار نہیں بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ ہاسپٹل کے ڈیٹا کے اعتبار سے یہ بات سامنے آئی کہ چند سال پہلے بچپنے میں ان کے سرکا آپریشن ہوچکا تھا اور اس کے بھی تمام دستاویزات میڈیا پر منظر عام پہ لائے گئے۔

لیکن افسوس، اس کیس کو پوری احتیاط اور باریکی بینی سے ہینڈل کرنے کے باوجود ، جمهوری اسلامی ایران کے دشمنوں نے ابتداء سے ہی پورے مسئلہ کو برعکس پیش کرنے کی تمام تر کوششیں کیں اور اس حادثہ کو شورش بپا کرنے کا ایک بہانہ بنا لیا انھوں نے مندرجہ چند اہداف و مقاصد کے لیے سامراج کے اشاروں پہ مغربی میڈیا کے توسط سے غلط اور چھوٹھی خبریں پھیلائیں۔

پہلا: انھوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ حجاب اسلامی کو پچھڑے پن کا سبب اور عورت کے لئے قید خانہ بتائیں اور اس کے نتیجہ میں اسلام کو ایک زن مخالف مذہب قرار دیں۔

دوسرا: جمهوری اسلامی ایران کو خواتین کے حقوق کا منکر قرار دیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں یہ جتلانے کی کوشش کی کہ حجاب کے قانون کی وجہ سے ایران میں خواتین عقب افتادگی اور پچھڑے پن کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان پر عرصہ حیات تنگ ہے اس سلسلہ میں انھوں نے ایران کی خواتین کے حالات کو بعض سلفی خواتین کے حالات سے مقایسہ کیا۔

تیسرا: انھوں نے یہ پروپگنڈہ کیا کہ جمہوری اسلامی ایران لوگوں کے احتجاجات کے مقابلہ میں بری طرح تشدد کا سہارہ لے رہا ہے اور مخالفین کا سر کچل ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ جمہوری اسلامی ایران کے خلاف جھوٹھی میڈیا کی اس طرح کی متعددبڑی بڑی کوششیں پہلے بھی ناکام ہو چکی ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دشمن بار بار کسی نہ کسی بہانہ سے جمہوری اسلامی ایران میں بحران پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ دشمن کی دشمنی کی شدت اور ان کی پلاننگ کو سمجھنے کے لئے صرف اس محدود مدّت میں نشر ہونے والی خبروں اور ان کی تحلیلوں کی بھرمار پہ نگاہ ڈالئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ بغض و کینہ کا کیا عالم ہے اور دشمن کس قدر دشمنی میں غرق ہے۔

دشمن نے ہر طرح سے جمہوری اسلامی ایران کو کمزور اور بے بس بنانے کی کوشش کی لیکن کہیں کامیاب نہ ہوسکا سو اس نے اب میڈیاء اور اطلاعی جنگ کا رخ کیا ہے۔ آٹھ سالہ زبردستی تھوپی ہوئی جنگ معاشی اور سیاسی شدید ترین پابندیوں نے بھی امریکہ، اسرائیل اور ان کے علاوہ کسی بھی ایران کے دشمن کو ان کے مقاصد میں کامیابی عطا نہیں کی۔ ، اس لئے اب یہ جنگ بہت بڑے پیمانہ پہ شروع ہوچکی ہے۔ یقینا یہاں بھی ملت ایران ہی فاتح میدان ہوگی۔

جمہوری اسلامی ایران کے وزیر اطلاعات کی طرف سے جاری شدہ اس اعلانیہ کے مطابق جو ابھی سائیبر وار اور ملک میں رونما ہونے والے حادثات کے عوامل کے بارے میں منتشر ہوا ہے یہ بات اچھی طرح سے واضح ہو چکی ہے کہ کس طرح سے ایران کے خلاف امریکہ، برٹش حکومت، صیہونی حکومت، عربستان اور منافقین متحد ہوگئے ہیں اور انھوں نے دونوں طرح کی جنگوں میں جنگ نرم یعنی میڈیا کی جنگ میں اور جنگ سخت میں جمہوری اسلامی ایران میں مقیم دشمنوں کو تحریک کرکے اور ان کو وسائل فراہم کرکے بڑا رول ادا کیا ہے۔

ان کے چینلوں پہ ایک طائرانہ نگاہ اور حادثات میں استعمال ہونے والے اسلحوں کی شناخت پوری طرح سے اس واقعت کو آشکار کرتی ہے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے، جیسا کہ آگے چل کے اشارہ کیا جائے گا کہ یہ مقابلہ اور دشمنی جمہوری اسلامی ایران سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مشرقی تہذیب کے تمام اقدار مغربی تہذیب اور اس کے میڈیائی سامراج کے نشانہ پہ ہیں۔ تعجب اس بات پہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی دوست ممالک کی میڈیا بھی غیر ارادی طور پر ان جھوٹھی خبروں کے سیلاب میں بہ جاتی ہے اور ان سے مرعوب ہو کےایسی غلط تصویر اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگتی ہے جو جمہوری اسلامی ایران کے دشمنوں کی خواہش کے عین مطابق ہوتی ہے۔

افسوس کہ جھوٹھی خبروں کی کمیت و تعداد اتنی ہے کہ غیر معاند میڈیا بھی ان سے مرعوب ہو کے نادانستہ طور پر وہی کرنے لگتی ہے جو دشمن چاہتا ہے اور وہ ان خبروں کے مآخذ کو بھی نہیں دیکھتی کہ وہ کہاں سے آ رہی ہیں۔

ملک کا یہ حادثہ اور بعض میڈیا کا نا مناسب رویہ اس بات کا سبب قرار پایا کہ ہم پہلے اسلام میں خواتین کی عظمت اور ان کے منزلت پہ ایک اجمالی نگاہ ڈالیں اور پھر جمہور اسلامی ایران کے قوانین میں ان کی عظمت کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد ایرانی معاشرے میں خواتین کی موجودہ حالت پہ تحقیقی نظر کریں۔

قوانین ایران میں عورت کا مرتبہ کچھ اتنا ہے کہ ان قوانین کے مقدمہ میں ہی جہاں قانون اساسی کے اصلی اہداف کی تشریح ہے وہیں ایک خاص اور الگ سے عنوان کا آغاز ہے "زن در قانون اساسی"یعنی عورت قانون اساسی میں ۔اس مبحث میں مہمترین نکات مندرجہ ذیل ہیں:

• اسلامی معاشرے کی تشکیل کی لیے خواتین کے تمام حقوق کی بحالی جن پر گزشتہ جابرانہ نظام میں ظلم کیا گیا۔

• ایک خانوادہ اور فیملی کی تشکیل میں تسہیل پیدا کرنا اور اس کے وسایل کی فراہمی میں سعی و کوشش کرنا جو کہ انسان کے رشد و تکامل کی بنیادی ترین راہ ہے۔

• •انسان کی پرورش میں ماں کے بلند ترین کردار اور اس کے باعظمت فرائض کا احیاء۔

• مقدمہ کے علاوہ بھی قانون اساسی کی اصلی سطروں میں بلا واسطہ عورتوں کے مسائل کی طرف اشارہ موجود ہے۔

• مادہ۱۴ قانون اساسی کا اصل سوم تمام افراد مرد اور عورت سب کے لئے حقوق کی فراہمی اور قوانین کے مقابلہ میں سب کے لئے عدلیہ فیصلوں کی برابر سے سہولت۔

• اصل ۲۰ قانون اساسی قوم و ملت کے تمام لوگ عورت مرد سب برابر سے قانون کے زیر سایہ ہیں انسانی سیاسی معاشی سماجی اور تہذیبی تمام حقوق سے اسلامی معیارات کی رعایت کے ساتھ برابر سے بہرہ مند ہونے کا حق۔

• الف اصل۲۱ قانون اساسی:- حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ تمام جہات میں عورتوں کے حقوق کی اسلامی معیارات کی رعایت کے ساتھ پاسداری کرے اور مندرجہ ذیل فرائض کو ادا کرے ٢)ایسے مقدمات کی فراہمی جو صنف نسواں کے رشد اور ان کے مادی اور معنوی حقوق کے احیاء میں معاون ہوں۔

• ماں کی حمایت اور بچوں کی ابتدائی دیکھ بھال کے دوران لاوارث بچوں کی مدد اور حمایت میں نسلوں کی بقا کے لیے عدلیہ کا انعقاد لاوارث اور بیوا وں کے لیے مخصوص بیمہ کا انتظام۔

• ۲۷ذمہدار ماؤں کی ولی شرعی کے نہ ہونے کی صورت میں قیومیت کا اعطاء

• اصل۶۲ قانون اساسی:- تمام افراد ملت عورت مرد سب قانون کے زیر سایہ ہیں اور سیاسی معاشی تہذیبی اور انسانی تمام حقوق سے مستفیض ہیں موازین شرعی کی رعایت کے ساتھ اسی طرح سے تمام لوگ چاہے مرد ہو یا عورت سیاسی معاشی سماجی اور ثقافتی سرنوشت کی تعیین میں مشارکت کریں۔اسی طرح سے حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ وہ تمدن و ثقافت کی مشارکت میں موازین اسلامی کی رعایت کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرے۔عورتوں کی شخصیت کے رشد و نکھار اور اس کے حقوق کے احیاء کے لئے مقدمات فراہم کرے ۔

اور اسی طرح سے مادہ ۹کے اصل میں تین قانون اساسی میں بھی یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ: تمام بے جا تبعیض اور فرق کو ختم کیا جائے ۔ مادی اور معنوی تمام راہوں میں سماج کے ہر ہر فرد کو عادلانہ طور پر سہولیات اور وسائل سے مستفیض کیا جائے۔

تہذیب کے نام پر ابتذال

نئی تہذیب نے اگرچہ دور حاضر کو آرام و آسائش کے لئے حیران کن ٹکنالوجی سے نوازا ہے لیکن نہ صرف یہ کہ اخلاق کے نام پر نام کو بھی ترقی نہیں کی بلکہ تمام انسانی اقداروں اور معیاروں کو مادی معیارات کی پستیوں کا شکار بنا دیا اور اسی پہ پرکھنا شروع کر دیا۔انسان کی معنوی لذتیں مادی چاٹ بن گئیں اور وہ سکون و اطمینان جسکو انسان معنویت کے آسمان پہ حاصل کرتا تھا اس سے محروم ہوکے مادیت کی زمین پر چند روزہ وہمی سکون میں محدود ہو گیا۔ماڈرن نگاہ میں وہی انسان کامیاب اور کامل ہے جو مادی دنیا کے زیادہ حصہ کو اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو۔ وہی خوش نصیب جس نے دوسروں سے زیادہ مادی لذتوں کا چٹخارہ لیا ہو۔ظاہر ہے اس نگاہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورت نئی تہذیب کے مرد کا سب سے بہترین وسیلہ لذت ہے۔مغربی مرد سماج کی عورت سے پوری آزادی سے لذت اٹھانا چاہتا ہے اس لئے عورت کی آزادی کے نعروں کی آڑ میں وہ عورت کو اسکے لباس اور اس کی حرمت و کرامت سے باہر لانا چاہتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ لذتیں حاصل کرے اور عورت کو مرد کے لئے زیادہ سے زیادہ تلذذ جنسی کا وسیلہ بنا سکے۔اس راہ میں مرد کی خاصیت تنوع طلبی اور زیادہ سے زیادہ حصول لذت کی خواہش تھی مرد نے بہت زیادہ نئے نئے جنسی تجربے سے لذتیں حاصل کی اور اس تجربہ کی بھینٹ سب سے زیادہ عورت چڑھائی گئ۔البتہ لڑکیوں کے علاوہ ،بچوں کے ساتھ سکس،ہمجنس گرائی،حیوانات کے ساتھ بد فعلی یہ سب وہ تجربات تھے جن سے بیسوی صدی کا مرد کبھی نہ بجھنے والی ہوس کی پیاس کے ساتھ نامراد اور تشنہ ہی گذرا۔اس راہ میں سینما کے چھوٹے بڑے پردے بھی اپنے بعض فاخر نشریات کے علاوہ برہنگی جسم کی نمائش اور جنسی آزادی کی ترویج میں پیش پیش رہاسینما کی بڑی انڈسٹری مثلاً ہالیوڈ کی نشریات پہ ایک طائرانہ نگاہ بھی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ مخاطب کو جذب کرنے کا سب سے بہترین طریقہ جنسی جذابیت سے استفادہ ہے اور خواتین جس طرح چیزوں کی فروخت میں ایڈ اور اشتہارات کی دنیا کی قربانیاں تھیں اسی طرح سے فلم کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ مخاطبین کو جذب کرنے کے لئے بھی قربان کی جا رہی ہیں۔ مختلف انداز کے میک اپ سے سجے سنورےخوبصورت فلمی اداکارواں اور ان کی تحریک کنندہ حرکات و سکنات سے استفادہ کرنے کا فن مغربی دنیا کی طرف سے مہذب مشرق کو ملنے والا ایک شوم تحفہ ہے۔ کمپیوٹر گیمز، ٹی وی کے متعدد چینل وغیرہ وغیرہ جبکہ ایک طرف جہاںمصلحین کی دنیا ان چیزوں سے استفادہ کے ذریعہ انسانیت کے رشد و کمال کا خواہاں ہے.وہیں مغربی تہذیب اس کو فقط اپنی تجارت چمکانے کا ایک وسیلہ سمجھتا ہے ان چیزوں کے ذریعہ وہ صرف اپنے مادی اہداف تک رسائی چاہتا ہے.بغیر کسی شک و شبہ کے بچے نو جوان اور جوان بھی ابتزالی تہذیب کے مخاطبین کے عنوان سے ان کے محصولات کی قربانیاں ہیں۔

جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی روشنی میں جس طرح سے بے لگام ٹکنالوجی نے انسان کے ماحول طبیعت کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے طوفان سیلاب برف کا پکھلنا جنگلوں کی آگ آب ہوا کی آلودگی جیسی بہت سی مشکلات و تباہیاں پیدا کی ہیں اسی طرح سے عصر حاضر کے پست و ذلیل مغربی تہذیب نے انسان کی پاکیزہ تہذیب واخلاق کے دائرہ میں تباہیاں مچا دی ہیں جو بعد انسانی کے اختلاط اور ایک دوسرے کے وظائف میں دخالت کا نتیجہ ہے۔

اگر ہم مڈرنسیم کے تسلط سے قبل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا مغربی ممالک کی تاریخ میں بھی کبھی عورت اتنی عریاں اور متاع لذت و ہوس نہیں بنی اس کا لباس اور اس کی نوعیت آج کے لباس اور اس کی نوعیت سے کافی مختلف تھی ‌۔یہاں ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مغرب کی مبتذل تہذیب صرف مسلمان یا جمہور اسلامی ایران کو نشانہ نہیں بنائے ہوہے بلکہ دنیا کی تمام تہذیبیں اس کے حملات کے زد پہ ہیں۔

ہندوستانی تہذیب چینی تہذیب امریکہ لاتین کی تہذیب جنوب مشرق اشیاء کی تہذیب مثلاً اندونزی مالیزی وغیرہ وغیرہ سب ہی اس بحران کے شکار نظر آتے ہیں اور کبھی کبھار بھولے بھٹکے ان ممالک کے عہدہ داران بھی اپنے ہم وطن کو مغربی تہذیب کے حملات سے آگاہ کرتے ہوئے نظر آجاتے ہیں ۔

جمہوری اسلامی ایران میں خواتین کے حالات

جمہوری اسلامی ایران میں خواتین کے حالات کو ایران کے اساسی قوانین ترقیاتی منصوبے اور دستاویز اور عورتوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کے منشور کے رو سے دیکھنا چاہیئے ایرانی خواتین کے سماج کی چند خصوصیات اور ان کی موجودگی کے شعبوں کا اجمالی طور پر تذکرہ ہوا ہے۔

سماج میں جتنی پاکیزگی اور بہتر معالجہ ہوگا اتنا ہی لوگوں کی شرح زندگی اور اوسط عمر میں اضافہ ہوگا۔

سال ۱۳۸۵ میں عورتوں کی امید زندگی کا میزان ۷۴/۶ تھا۔سال ۱۳۹۴ میں ۷۵/۶

لیکن مردوں میں ۱۳۸۵ میں ۷۲/۸ تھا ۱۳۹۵ میں بہ۷۲/۸زندگی کی امید کی افزائش کا اصلی سبب صحت و معالجہ کے باب میں بہترین خدمات ہے خاص طور پر دیھی اور محروم علاقوں میں حالات و اقتصاد کی بہتری ہے اور خاص طور سے بچوں کی شرح اموات میں کمی ہے۔

آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ یہاں اوسط زندگی کا اشارہ یہ عالمی اوسط زندگی سے زیادہ ہے۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین کی عمر کا اوسط مردوں کی اوسط عمر سے زیادہ ہے۔

جبکہ دشمن ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران میں عورتوں کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور ایرانی عورتوں کے سماج میں یاس و ناامیدی کا راج ہے۔

۱۳۸۵ سے ۱۳۹۴ تک کے دوران اوسط عمر

جمہوری اسلامی ایران میں خواتین کا دینی، قانونی اور معاشرتی مقام..."مہسا امینی کی موت پر دشمن میڈیا کے پروپگنڈوں کے مد نظر"
ایران میں سال ۱۳۵۵ میں حاملہ عورتوں کی شرح اموات ۲۵۵ تھی مگر ۱۳۹۷ تک یہ 12 تک سمٹ گئ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .