تحریر: مولانا اجمل حسین قاسمی
حوزہ نیوز ایجنسی। خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں عورت مارچ بھی شامل ہے۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور سمیت متعدد شہروں میں اپنے حقوق اور مقام سے نابلد چند عورتوں نے اجنبی مردوں کیساتھ، بغیر کسی اسلامی، اخلاقی اور علاقائی حدود و قیود کے ریلیاں نکالیں۔ جن میں عورت کے شرم و حیا کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ان ریلیوں میں پلے کارڈز اور بینر بھی اٹھائے گئے جن پر لکھے نعروں کو تحریر میں درج کرنا شاید عورت کی توہین ہو جس کی وجہ سے انہیں تحریر کا حصہ نہیں بناتے۔ ریلیوں میں موجود خواتین بے پردہ، اپنے جسم کی نمائش کرتی ہوئی سڑکوں اور چوراہوں پر اجنبی مردوں کے ساتھ کئی گھنٹوں تک مسلسل ناچتی رہیں اور اسلامی، انسانی اور اخلاقی اقدار و حدود کے خلاف نعرے بلند کرتی رہیں۔ یہ تمام حرکات عین اسی وقت سوشل میڈیا پر نشر ہوئی اور مغربی ممالک و این جی اوز سے وابستہ بعض سوشل میڈیا اکاونٹس، پیجز اور چینلز نے ان ریلیوں کو براہ راست نشر کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کا یہ مناسب طریقہ ہے؟ کیا ایسا کرنے سے عورت کو حقوق و آزادی ملے گی؟ کیا عورت کی آزادی اور حقوق یہی ہیں کہ وہ بے پردہ سڑکوں پر آکر اجنبی مردوں کیساتھ ناچے؟ ایسا تو نہیں کہ یہی عورتیں آزادی کا نعرہ لگاکر آزاد خواتین کو بھی مغربی غلامی میں دھکیلنے اور اپنے دین و مذہب سے دور کرنے کی کوشش کررہی ہوں؟ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے ان ریلیوں کا مقصد عورت کے حقوق و آزادی نہیں بلکہ ایک مسلمان عورت کو اپنے حقوق، وظائف اور فرائض سے دور کرکے مغربی عورتوں کی طرح ایک کھلونے کی شکل میں پیش کرنا ہے جس کے بعد معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت اور شخصیت باقی نہیں رہتی۔ پھر وہ عورت نہیں بلکہ ہوس کے پجاری مردوں کی تسکین کا کھلونا بن جاتی ہے۔ جس کا اپنا خاندان نہیں ہوتا حتی یہاں تک کہ ایسی عورتوں کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے بچوں کا باپ کون ہے۔ جس کی مثالیں مغربی معاشرے میں موجود ہیں۔
اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عورتوں کیلئے مسائل و مشکلات ہیں۔ ان کو بعض حقوق ملتے نہیں۔ اسی چیز سے سوء استفادہ کرتے ہوئے مغربی این جی اوز ہماری باحیا اور پاکیزہ خواتین کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اسی بہانے انہیں اسلامی اقدار اور احکام سے دور کرکے ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کریں۔ اب تک ان پروگراموں میں انگشت شمار خواتین جن کو دیگر ممالک سے لایا جاتا ہے یا جو مغربی ممالک کے این جی اوز سے وابستہ ہیں ان کے علاوہ کسی عام خاتون نے شرکت نہیں کی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان اور علاقے میں عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے۔ جو شرعی حقوق ایک عورت کو میسر نہیں ان کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اور خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو مغربی این جی اوز اسی طرح ہمارے معاشرے کو تباہی کی جانب دھکیلتے رہیں گے۔