حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کی معروف دینی اور سماجی شخصیت حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح طور پر معلوم ہے اور ہر صاحب علم و فہم بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اصلا ح معاشرہ کے عمل میں خواتین کا کردار مردوں کے کردار کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ عورت ماں ہے اور ماں کی گود میں ہر معاشرے کی نئی نسل پیدا ہو تی ہے اور اسی کے ہاتھوں پروان چڑھتی ہے۔ ماں اپنی تربیت سے نسلِ نَو کو کردار و عمل کا ایسا نمونہ بنا سکتی ہے جو انسانیت کے لیے باعث فخر ہو۔۔۔یہی وجہ ہے کہ سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام نےاپنے ہمراہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کو بھی لائے تاکہ شہادت کے بعد ان کے اہداف و مقاصد کو یہ خواتین دنیا کے کونے کونے میں پہنچائیں اور حسینیت و عالمِ انسانیت کے لیے انہیں قابل رشک، باعث فخر اورہر دور کی یزیدیت کے لئے مزاحمت کا پیکر بنادیں لہذا موجودہ دور میں فکر و ذکر حسینؑ کی غائب ہوتی معنویت کو برقرار رکھنے کے لئے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی ایمان و اخلاص ، صبر و تحمل اور عفت حیا کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقصدِ قیام امام حسین علیہ السلام کی اشاعت اور ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کے مشن کی ترویج میں اپنا اہم کردار ادا کریں ؛ بنظر غائر کربلا میں موجود ان خواتین کی سیرت و کردار پر ایک نظر ڈالیں جنہوں نے میدان کربلا میں بھوک و پیاس ،غربت و الم کے باوجود امامؑ وقت کی اطاعت و اتباع اور ان کی محبت و الفت میں جوان بیٹوں ، بھائیوں ، نوخیزوں نونہالوں اور اپنے شیرخوار بچوں تک کو دین کے تحفظ کی خاطرقربان کرنے سے دریغ نہیں کیا ! کون ہیں یہ باعظمت خواتین جو کربلا کے بعد ،پاسبان دین ،محافظ مقصد امامت ولایت حضرت زینب کبری ؑ کی سربراہی میں مقصد کربلا کو تحفظ فراہم کیا ؟!
انہوں نے کہا کہ یہ حضرت زینبؑ و اُمِ کلثومؑ حضرت اُمِ ربابؑ،حضرت ام لیلیٰؑ بنت عروہ،حضرت ام فروہؑ،حضرت فضہ ؑ وغیرہ جیسی عظیم بیبیوں کی ہی رہین منت ہے جو کربلاآج اپنے شان و بان سے سر اٹھائے وقت کی یزیدیت کو للکار رہی ہے ۔۔۔ان مثالی خواتین کو ہمارے گھر و خاندان اور معاشرے کی عورتیں اپنا رول ماڈل بنائیں ۔اس لئے کہ اصلا ح معاشرہ کے عمل میں خواتین کا کردار مردوں کے کردار کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہے ۔یہ عورت ہی کی ذات ہے جس نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مل کر چراغ انسانیت کو تا قیامت روشن کردیا ہے۔
مزید کہا کہ یہ کہنا حق بجانب ہے کہ اگر میدانِ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا اصل مقصد آج زندہ ہے تو انہی عورتوں اور بچوں کے طفیل جنہوں نے کربلا کو ابدی دوام بخشا ہے ۔۔۔اس لئےہم پر یہ شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عورتوں اور بچوں کی عزت و احترام اور ان کی تعلیم و تربیت کا خاصہ خیال رکھتے ہوئےانہیں خودساختہ رسم و رواج ،غلط افکار و عقائدسے دور رکھاجائے اور انہیں مقصد شبیرؑ اور مقصدِ عزا سے خوب آگاہ کرتے ہوئے انہیں اسلامی تہذیب اور کربلائی ثقافت سے روشناس کرایا جائے۔ اس لئےکہ نام حسینؑ پر منعقد ہونےوالی یہ مجلسیں در حقیقت مقصد و معرفتِ حسین ؑ تک پہنچنے اور قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔