۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
فرزندآوری

حوزہ / جامعۃ الزہرا (س) کی استاد نے کہا: دشمن معاشرہ میں خواتین کے کردار کو کمزور کرنے اور خواتین کو خاندان سے باہر گھسیٹنے اور اسلامی نسل کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش میں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں جامعۃ الزہرا (س) کی استاد محترمہ زہرا عبداللہی نے زچگی کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: خواتین کے عواطف میں سے ایک ممتا کی عطوفت ہے۔ خدا کی اطاعت میں خواتین کا بنیادی اور اہم کردار زچگی اور زوجیت میں مضمر ہے۔

انہوں نے خاندان کی مختلف اقسام کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ایک متزلزل خاندان وہ خاندان ہے جو بغیر کسی مقصد کے تشکیل پاتا ہے اور اس میں فقط مختلف کردار ہی تبدیل ہوتے ہیں اور متوازن خاندان ایسے خاندان کو کہا جاتا ہے جس میں فطری قوانین کی حکمرانی ہوتی ہیں۔

حوزہ علمیہ کی اس استاد نے مزید کہا: الہی اور ماورائی خاندان وہ خاندان ہے کہ جو درحقیقت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا موردِ پسند اور ان کے ظہور کا زمینہ فراہم کرتا ہے۔ قرآنِ کریم نے بھی خاندان کے موضوع اور اس کی اقسام پر بہت زیادہ تاکید کی ہے اور تاریخ میں الہی خاندان منجملہ حیات طیبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

جامعۃ الزہرا (س) کی استاد نے کہا: خاندان کی اہمیت پیشِ نظر آج اسلام کے دشمن عناصر خاندان کو تباہ کرنے کی کوشش میں ہیں لہذا وہ خاندانی کردار کو تبدیل کرنے، ایک دوسرے کے حقوق، فرائض اور ذمہ داریوں کو ضائع کرنے، بچے پیدا نہ کرنے جیسے مسائل کو چھیڑ کر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے درپے ہیں۔

انہوں نے ایک مشرقی عالم کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے کے لیے تین چیزوں کو تباہ کرنا ہوگا: خاندان، نظام تعلیم اور نمونہ اور ماڈل شخصیات کا تصور۔

انہوں نے کہا: کسی ملک سے اس کی تہذیب چھیننے کے لیے اس سے ماں اور ممتا کا کردار چھیننا ہوگا جبکہ ہمارے لیے پہلی ترجیح خاندانی نظام اور اسلامی نظام کا تحفظ ہے جو دونوں ایک دوسرے کے مقروض ہیں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مسئلہ پر تاکید فرمائی ہے۔

محترمہ زہرا عبداللہی نے زچگی کی اہمیت پر رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی کی تاکید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: رہبرِ معظم نے بارہا اس بات پر تاکید کی ہے کہ معاشرہ کی ترقی وغیرہ کے بہانوں سے آبادی کے کنٹرول کے خام تصور کو روکا جانا چاہئے۔ اس کے لیے ہمیں دینی معاشرہ میں ثقافتی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کو بھی اس حوالے سے بصیرت حاصل کرنی چاہیے۔

جامعۃ الزہرا (س) کی استاد نے مزید کہا: آبادی کی کثرت کا ایک امتیاز قومی اقتدار کا حصول ہے اور آبادی میں کثرت کے بغیر ہم اسلامی تہذیب حاصل نہیں کر سکتے۔ بچے پیدا کرنے اور اس میدان میں خواتین کے کردار اور اس کی اہمیت کے بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ تولیدِ نسل عورت کی فطرت میں شامل ہے لہذا کسی بھی غلط تفکر یا غلط ثقافت کی پیروی میں اسے ترک نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے بچوں والے خاندانوں کو رزق و روزی فراہم کرنے کے خدائی وعدہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: جو لوگ بچے پیدا کرنے کے مسئلے کو اقتصادی، معاشی یا تربیتی مسائل کا بہانہ قرار دیتے ہیں تو انہیں سورۂ اسراء کی آیت نمبر 31 میں خداوندِ متعال کا فرمان نہیں بھولنا چاہئے کہ: "وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا"یعنی "اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

انہوں نے تین اہم حکمت عملیوں حلال روزی کمانا، خاندانی رشتوں میں قربت اور والدین کے رویے میں تضاد کا نہ ہونے کو بچوں کی تربیت میں سب سے اہم موضوع قرار دیتے ہوئے کہا:دنیاوی زندگی کی شان حلال روزی کا فراہم کرنا ہے۔ جہاں روایات میں مرد حضرات کے حلال کمائی کے عمل کو جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے تو وہیں پر خواتین کو بھی اپنی زندگی پر قانع رہنا چاہئے۔ اسی طرح میاں بیوی کا رشتہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ رشتہ جتنا گہرا اور محبت بھرا ہوگا اتنا ہی بچوں کی پرورش بھی بہتر ہوگی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .