۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
آٹھویں دن کی دعا

حوزہ/منتخب پیغام:️ افشائے سلام، کے معنی بلندآواز سے سلام‌كرنا نہیں ہے ؛ بلکہ  ان معنوں میں ہے کہ انسان جس سے بھی ملے اسے سلام کرے۔امام صادقؑ فرماتے ہیں: افشائے سلام، کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس کسی سے بھی ملاقات کرے تو سلام کرنے میں بُخل نہ کرے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

ماہ رمضان المبارک کے آٹھویں دن کی دعا

ماہ رمضان المبارک کے آٹھویں دن کی دعا/دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح

أَللّـهُمَّ ارْزُقْنى فيهِ رَحْمَةَ الاَيْتامِ وَ اِطْـعـامَ أَلطَّـعـام ِوَ اِفْشـآءَ السَّــلامِ وَ صُـحْبَـةَ الْكِـرامِ بِطَوْلِكَ يا مَلْجَأَ الاْمِلينَ

ترجمہ : اے معبود! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربان رہوں، اور لوگوں کو کھانا کھلاتا رہوں، اور با آواز بلند سلام کروں اور شرفاء کی مصاحبت کی توفیق عطا کر، اے آرزومندوں کی پناہ گاہ۔

اہم نکات

اس دعا میں چند باتوں کو محوریت دی گئی ہے: (1)یتیموں اور بے نواؤں کی سرپرستی اور ان پر خاص توجہ(2) کھانا کھلانے کا دسترخوان بچھانا(3)اسلامی آداب کی رعایت اور سلام میں پیش قدمی کرنا(4)دوست اور رفیق کا مسئلہ۔

دعائیہ فِقرات کی مختصر تشریح

۱– أَللّـهُمَّ ارْزُقْنى فيهِ رَحْمَةَ الاَيْتامِ:

اسلام یتیموں، مسکینوں، بیواؤں، بے سہارا اور غریب طبقے کو سہارا دینے، ان کی مکمل کفالت کرنے، ان سے پیار کرنے اور انہیں کھانا کھلانے، انہیں وسائل مہیا کرنے اور انہیں آسودگی فراہم کرنے کی ناصرف ترغیب دیتا ہے بلکہ معاشرے کے بے کس، محروم، نادار طبقے اور سوسائٹی کے محتاج، بے سہارا اور معصوم بچوں کی کفالت کے اہتمام کا حکم بھی دیتا ہے،معاشرے کے اس طبقے کو محروم رکھنے والوں کے لیے اسلام نے سخت وعید سنائی ہے اور کہا ہے کہ دین اسلام کو جھٹلانے والے وہ لوگ ہیں جو یتیموں کو دھکے دیتے ہیں، ان سے پیار نہیں کرتے، ان کی کفالت نہیں کرتے اور انہیں آسودگی دینے پر اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ وہ یتیموں کی ایسی کفالت نہیں کرتے جیسے اپنے بچوں کی کرتے ہیں ،ایسے لوگوں کو دوزخ کے عبرتناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے کہ جو اپنی نمازوں کی تو بڑی فکر کرتے ہیں مگر سوسائٹی کے محروم و محتاج بچوں کے سروں پر سایہ نہیں بنتے، انہیں اپنی نماز کا تو بڑا فکر رہتا ہے مگر وہ ان محتاجوں، یتیموں کی فکر نہیں کرتے، ایسے نمازیوں کو قرآن پاک میں ریاکار کہا گیا ہے، جو نمازیں تو پابندی سے پڑھتے ہیں، لیکن وہ نماز کی اصل روح سے غافل ہیں، دراصل یہ نمازیں ان نادار اور بے بس وبے کس طبقے کی مدد کا سبق دیتی ہیں، جو لوگ محتاج طبقے کو برتنے کی کوئی معمولی چیز مانگنے پر بھی نہیں دیتے اور وہ ان محتاجوں کو دھتکار دیتے ہیں، انہیں بخیل کہا گیا ہے،سورہ الفجر میں ارشاد ربانی ہے "کچھ لوگ دوزخ میں پھینک دیئے جائیں گے۔ ان سے جنتی پوچھیں گے کہ تمھیں دوزخ میں کیوں ڈالا گیا؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں دوزخ میں اس لیے ڈالا گیا کہ: کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ؛ہم اپنے مال و وسائل سے یتیموں کی کفالت نہیں کرتے تھے[1]، انہیں معاشرے میں باعزت مقام نہیں دیتے تھے، انہیں آغوش میں نہیں لیتے تھے، ہمیں اپنے مال سے بہت محبت تھی، غریبوں مسکینوں سے محبت نہیں کرتے تھے۔امیرالمومنین Aضربت کے بعد اور شہادت سے پہلے وصیت فرماتے ہیں: "اللّه َ اللّه َ في الأيتامِ، فلا تُغِبُّوا اَفواهَهُم، و لا يَضِيعوا بحَضرَتِكُم "دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہیں ان کے فاقوں کی نوبت نہ آجائے اور وہ تمہاری نگاہوں کے سامنے برباد ہوجائیں" یتیم نواز امام حضرت امام علی A کا ارشاد گرامی ہے: "ما مِن مُؤمنٍ و لا مُؤمِنَةٍ يَضَعُ يَدَهُ على رأسِ يَتيمٍ تَرَحُّما لَهُ إلاّ كَتَبَ اللّه ُ لَهُ بكُلِّ شَعرَةٍ مَرَّت يَدُهُ علَيها حَسَنَةً ؛کوئی مومن مرد اور مومن عورت نہیں ہے جو اپنا ہاتھ یتیم کے سر پر رحم کرتے ہوئے رکھے مگر اللہ اس کے لئے ہر بال کے بدلہ جس پر اس کا ہاتھ پھرا، ایک نیکی لکھ دیتا ہے[2]"،ابوالطفیل کا کہنا ہے: میں نے ایک دن حضرت علی Aکو دیکھا کہ آپؑ نے یتیموں کواپنے پاس بلایا، پھر آپؑ ان پر اس طرح مہربانی کرتے اور انہیں شہد پلاتے کہ آپؑ کے بعض اصحاب آرزو کرتے کہ اے کاش ہم بھی یتیم ہوتے[3]۔

۲– وَ اِطْـعـامَ أَلطَّـعـام:

روزہ رکھ کر بھوکے اور نادار مسلمان کا احساس کرنا بھی روزے کا ایک مقصد ہے مسکینوں کو کھلانا بھی اس مہینے کا ایک بہترین عمل ہے اگر کچھ پکایا جائے تو غریبوں اورپڑوسیوں کا حصہ نکال کر بھیجا جائےکسی کو اگر کچھ دیا جائے تو عزت و احترام سب سے پہلے۔۔۔جو غریب کو کچھ بھی نہیں دے سکتاوہ محبت اورپیار تو دےہی سکتاہے۔

آ ج کل بڑی بڑی افطاریاں دی جاتی ہیں جنمیں عموماً پیسے کی نمائش ہوتی ہیں اگر ایک مالدار شخص افطاری کا اہتمام کروائے بھی تو وہ مالداروں کو نہیں بھولتا،یاد تو بس غریب نہیں رہتے۔۔ اگر مالدار کو افطاری پر بلانا بھول بھی جائیں تو کتنی بار معذرت ہوتی ہے اسِ ’’گناہ‘‘کا’’ کفارہ‘‘ تک ادا کیا جاتا ہے،جواب میں دوسرے مالدار بھی ان کے ساتھ خوب’’ نیکی‘‘ کرتے ہیں ،اور اگر کوئی غریب قسمت کا مارا ایسی دعوت پر چلا بھی جائے تو شاید وہ واپس بھوکا ہی جانا پسند کرے گا۔۔۔

یہاں مطلب یہ نہیں کہ کھانے پینے ،عزیزوں اور دوستوں کوروزہ افطار کروانے میں کوئی حرج ہے مگر یہ مقصد ضرور ہے کہ اصل نیکی توغریب کا پیٹ بھرنا ہے اگر یہ کام ہو رہا ہے توپھر کسی کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔مگر کیا ہم نے کبھی مالداروں کو ماہِ رمضان میں غریبوں اور یتیموں کا پتا پوچھتے ان کا گھر تلاش کرتے پایا ۔۔۔یا امیر کوکھانا اٹھا کر غریب کے گھر کارخ کرتے پایا ۔۔۔اس کے علاوہ امیر کو غریب کے ساتھ ایک برتن میں کھاتے ہوئے کتنی بار دیکھا؟ ہاں البتہ۔۔۔اپنی کلاس کے لوگوں کے ساتھ توپارٹیاں نوش فرمائی جاتی اکثر ملاحظہ ہوئی ہوں گی۔آج کل تو اچھے اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں بھی یہ ’’عبادت‘‘ہو رہی ہے۔۔۔۔۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہر کلاس کے لوگوں کواسی کلاس کے " پیشنماز" بھی مل جاتے ہیں۔۔۔مگر رب العزت کا شکر ہے کہ کھا پی کر نمازباجماعت تو ہر جگہ ہو ہی جاتی ہے۔۔۔۔۔!بہر حال ماہ مبارک رمضان میں افظار دینے اور اطعام کرانے کی بہت فضیلت اور اہمیت ہےامام زین العابدین Aکی سیرت میں مذکور ہے کہ آپ آبگوشت آمادہ کرواتے تھے اور پیالہ پیالہ کرکے سب تک پہنچواتے تھے اور خود نان و خرما کے ذریعہ افطار فرماتے[4]؛امام کاظم Aفرماتے ہیں:فطرک اخاک الصائم افضل من صیامک ؛جو کوئی اپنے مسلمان روزہ دار بھائی کو افطار کرائے اس نے اپنے اصل روزے سے بھی بڑھکر اعلیٰ اور افضل کام کیا ہے[5]۔

۳– وَ اِفْشـآءَ السَّــلامِ:

سلام کرنا مستحب ہے اور اسکا جواب دینا واجب لیکن ثواب کے معاملہ میں یہ واجب اپنے ساتھی مستحب سے بہت نیچے اور پیچھے رہ جاتا ہے، سلام کی نیکی کے کل ستّر حصے ہیں جنمیں سے 69 حصہ اسکا ہے جو پہلے سلام کرےمگر جو سلام کا جواب دیتا ہے اسکا صرف ایک ہی حصہ اجربنتا ہے؛السلام سبعون حسنۃ تسع و ستون للمبتدی و واحدۃ للراد[6]؛ اسی طرح روایات میں وارد ہے کہ : جو کوئی بلند آواز سے سلام کرے اسکا گھر نیکیوں اور بھلائیوں کا مرکز بن جاتا ہے[7]۔۔۔

۴– وَ صُـحْبَـةَ الْكِـرامِ:

دعا کا یہ حصہ ایک اچھے دوست اور رفیق کی درخواست پر مشتمل ہے، انسان کے اوپر اس اطراف کے لوگ بہت زیادہ مؤثر ہوتے ہیں خصوصا اس کے دوست اس کے اوپر فکری اور عقدیدتی لحاظ سے سب سے زیادہ اثر ڈالتے ہیں جس کے بارے میں رسول خدا1اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں:ألمَرءُ عَلَی دین خَلیلِهِ فَلیَنظُر أحَدُکُم مَن یُخالِلُ،انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ وہ کس کو اپنا دوست بنارہا ہے[8]۔ اس روایت میں انسان کے اوپر جو اثر ہوتاہے اس کو بیان کیا گیا ہے، انسان کے اوپر اس کے دوست کا اثر کس طرح ہوتا ہے اس کواس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ: جس طرح پٹرول(petrol) کو شکر کے ساتھ نہیں رکھا جاتا کیونکہ شکر میں پٹرول کو بو بس جاتی ہے اسی طرح انسان کے اوپر اس کے دوست کا اثر بہرحال پڑتا ہی ہے اس لئے ضروی ہے کہ ہم اپنے آپ کو برے دوستوں سے محفوظ رکھیں اور خدا سے دعا کرتے رہیں: الحقنی بالصالحین۔۔۔

۵– بِطَوْلِكَ يا مَلْجَأَ الاْمِلينَ:

اور آخر کے اس فقرہ میں ہم خود خدا کی بارگاہ میں متوسل ہیں کہ یہ ساری التجائیں بغیر تیرے لطف و کرم کے سراب کے سوا کچھ نہیں اس لئے ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔۔۔۔

نتائج

دعا کا پیغام:1- یتیم نوازی؛2- اطعام فقرا ء؛3- سلام‌کرنا؛4-اچھے لوگوں کے ساتھ دوستی اور ہم‌نشینی۔

منتخب پیغام:️ افشائے سلام، کے معنی بلندآواز سے سلام‌كرنا نہیں ہے ؛ بلکہ ان معنوں میں ہے کہ انسان جس سے بھی ملے اسے سلام کرے۔

امام صادقؑ فرماتے ہیں: افشائے سلام، کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس کسی سے بھی ملاقات کرے تو سلام کرنے میں بُخل نہ کرے[9]۔

رسول خداﷺارشاد فرماتے ہیں: لایُستَکمِلُ عَبدٌ الایمانِ حَتّی یَکوُنَ فیہ ثَلاثُ خُصالٍ، الاِنفَاقُ مِنَ الاِقتَارِ وَالاِنصَافُ مِن نَفسِكَ وَ بَذلُ السَّلامِ لِجَمِيعِ العَالَم؛ انسان کا ایمان کامل نہیں ہوتاجبتک کہ اسمیں تین خصلتیں نہ پائی جاتی ہوں ؛تنگ دستی کے باوجود خدا کی راہ میں انفاق،اپنے بارے میں انصاف سے کام لینا اور سبھی کو سلام کرنا[10]۔


[1]– سورہ الفجر آیت نمبر 17

[2]– ثواب الأعمال، شیخ صدوق، ج1، ص199۔

[3]– بحارالانوار، ج41، ص29۔

[4]– بحار الانوار،93/317

[5]– مستدرک سفینۃ البحارج6ص421

[6]– مشکاۃ الانوار فی غرر الاخبار ص197

[7]– وسائل الشیعہ،ج1ص489

[8]– بحارالانوار، ج ۷۱، ص ۱۹۲

[9]– جوادی آملی، عبدالله، ادب فنای مقربان، ج ۱، ص ۱۰۵

[10]– جزایری‌، سيد عبدالله،التحفة السنية، ص65

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .