۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ماہ رمضان اور تربیت بچے

حوزہ/ دینی حوالے سے ماہِ رمضان گویا بچّوں، بڑوں ہر ایک کے لئے نیکی، پرہیز گاری اور کردار سازی کا مہینہ ہے، ایسے میں خاص طور پر مائیں، بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اس مبارک مہینے کی اہمیت کو اجاگر کریں اور روزے کے اصل مقصد سے واقف کروائیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی دینی حوالے سے ماہِ رمضان گویا بچّوں، بڑوں ہر ایک کے لئے نیکی، پرہیز گاری اور کردار سازی کا مہینہ ہے، ایسے میں خاص طور پر مائیں، بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اس مبارک مہینے کی اہمیت کو اجاگر کریں اور روزے کے اصل مقصد سے واقف کروائیں۔

چھ؍ سال کا اکبر رمضان شروع ہوتے ہی اپنے آس پاس کے معمول میں تبدیلی محسوس کرتے ہوئے اپنی ماں سے کئی سوالات کرتا ہے، ’’ماں! یہ رمضان کیا ہوتا ہے؟‘‘ ’’ماں! سب لوگ اتنی صبح کیوں اٹھ گئے ہیں؟، اتنی جلدی ناشتہ کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ ’’ماں! افطار کیا ہوتا ہے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دیکھا جائے تو بچوں کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے آپ ان کی بہتر انداز میں تربیت کرسکتے ہیں۔ دینی حوالے سے ماہِ رمضان گویا بچّوں، بڑوں ہر ایک کے لئے نیکی، پرہیز گاری اور کردار سازی کا مہینہ ہے، ایسے میں خاص طور پر مائیں، بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اس مبارک مہینے کی اہمیت کو اجاگر کریں اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روزے اور رمضان کے حوالے سے ایسی تعلیمات ان کے سامنے رکھیں، جن سے اخلاق و کردار کے حوالے سے مثالی سبق ملتا ہے۔

رمضان کا صحیح مطلب سمجھائیں
بچّوں کو رمضان کی آمد کا احساس دلائیں، انہیں ان کی عمر کے مطابق اس کے فضائل اور نعمتوں سے آگاہ کریں۔ مثال کے طور پر انہیں سمجھائیں کہ اگر آپ عام دنوں میں ایک نیکی کرتے ہیں، تو اس کا دس گنا ثواب ملتا ہے، مگر جب آپ رمضان المبارک میں ایک نیکی کریں گے، تو اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کا ثواب ستر گنا بڑھادیتا ہے۔ انہیں رمضان کی اصل روح سے متعارف کرواتے ہوئے اس مبارک مہینے میں دینی اور تاریخی لحاظ سے ہونے والے واقعات سے روشناس کروائیں۔ انہیں بتایئے کہ روزے کا مقصد صرف کھانا، پینا چھوڑنا نہیں، بلکہ اُن تمام کاموں سے دور رہنا ہے، جو اللہ اور اس کے حبیب، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ناپسند ہیں۔ جیسے غصّہ کرنا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، کسی پر تہمت لگانا اور دیگر برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا۔

اپنے ساتھ بچوں کو نماز میں شامل کریں
رمضان کے مبارک مہینے میں گھر کے بڑے پابندی سے پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز میں اپنے ساتھ بچوں کو بھی شامل کریں۔ چھوٹی عمر کے بچوں کو نماز میں پڑھی جانے والی سورتیں یاد کروائیں۔ بچے ایک ہی دن میں نماز پڑھنے لگ جائیں گے، ایسا ہرگز نہ سوچیں۔ یہ عمل دھیرے دھیرے کام کرے گا۔ مائیں بیٹیوں کو جائے نماز، دوپٹہ یا اسکارف دیں تاکہ ان میں نماز کا شوق پیدا ہو اور بیٹوں کو ٹوپی پہنائیں۔ اس طرح بچّے کم عمر ہی سے نماز، روزے کے عادی بن جائیں گے۔

قرآن مجید کی تلاوت کی ترغیب دیں
رمضان المبارک میں بچّوں کے ساتھ مل کر تلاوت قرآن پاک کا خاص اہتمام کیجئے۔ دن میں کم از کم ایک بار تلاوت کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ بٹھایئے اور وہ جو پارہ پڑھ رہے ہوں ان سے ان کے سبق کی تلاوت کروایئے۔ تلاوت پر اللہ تعالیٰ کے انعام کا تذکرہ کیجئے اور محبت بھرے تعریفی کلمات سے ان کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ آپ کی حوصلہ افزائی پاکر بچے مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔

سحری و افطار بناتے وقت ساتھ رکھیں
سحری و افطار کی تیاری کرتے وقت بچوں کا تعاون حاصل کریں۔ ان سے کوئی پھل چھیلنے کے لئے کہیں۔ کسی بچے کو دسترخوان سجانے کی ذمہ داری دے دیں۔ کبھی بچے سے دسترخوان سمیٹنے کے لئے کہیں۔ اس طرح چھوٹے موٹے کام ان سے کرواتے رہیں۔ بعض دفعہ بچے بڑی خوشی دلی سے ان کاموں کو انجام دیتے ہیں لہٰذا ان کی حوصلہ افزائی ضرور کیجئے گا۔

دوسروں کی مدد کا پیغام دیں
رمضان کے مبارک مہینے میں اپنے سے کمتر کی مدد کی جاتی ہے۔ یہی جذبہ اپنے بچوں میں پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ دوسروں کی مدد کرتے وقت بچوں کو ساتھ رکھیں۔ انہیں سمجھائیں کہ کسی کی مدد کرتے وقت غرور نہیں کرنا چاہئے، اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے۔ بچے کو یہ بھی درس دیں کہ مدد کرتے وقت نمائش نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایک ہاتھ سے اس طرح دینا چاہئے کہ دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ کم عمر سے بچوں کو سکھائی گئی یہ باتیں آگے چل پر پختہ ہوجاتی ہے اور وہ بڑے ہوکر بھی دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔

روزہ رکھوائیں
بچوں کو بتدریج روزہ رکھنے کی عادت ڈالیں، نسبتاً بڑے بچّوں کو جن پر روزے فرض ہونے والے ہوں۔ رمضان میں بچّوں سے وقفے وقفے خاص طور پر جمعہ کے دن کا روزہ رکھوائیں۔ لیکن بہت زیادہ کم عمر کے بچوں سے روزہ نہ رکھوائیں کیونکہ بعض دفعہ وہ روزہ کا اصل مطلب تک نہیں جانتے لیکن ان کے والدین ان سے روزہ رکھواتے ہیں۔ لہٰذا مناسب عمر میں ہی بچوں سے روزہ رکھوائیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .