۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 367597
14 اپریل 2021 - 00:34
حجت الاسلام والمسلمین سید حافظ ریاض حسین نجفی

حوزہ/ مہینے کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اس مہینے کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرو اس لئے کہ ہر چیز کے لئے موسم بہار ہوتا ہے قرآن مجید کیلئے موسم بہار ماہ مبارک رمضان ہے قرآن مجید کا نزول اسی مہینے میں شروع ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی،سربراہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان نے اپنی ایک تحریر جاری کرتے ماہ مبارک رمضان کی فضیلت اور اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے؛

بقاء فقط خدا کے لئے:
اس کائنات میں کچھ بھی نہیں تھا بلکہ یہ کائنات نہیں تھی خدا تھا ایک وقت آئے گا کہ کائنات ختم ہو جائے گی لیکن پھر بھی خدا ہو گا۔ اول خدا ہے آخر خدا ہے سب کے لئے نیستی نابودی ہے خدا کے لئے بقا ہے۔ ہر چیز نے تباہ ہو جانا ہے چلے جانا ہے بقاء صرف اور صرف خدا کی ذات کو ہے۔ جن ذوات مقدسات کو خدا نے مقدس بنایا ہے انہیں کمالات کا ایسا منبع بنایا ہے کہ ہر انسان جو ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی کام کر لیتے ہیں ان کو اپنے نمونہ اور اسوہ حسنہ ان سے مل سکتا ہے۔جتنا انسان ان کے قریب ہونے کی کوشش کرے گا اتنا ہی عظمت انسان کو ملے گی۔

ماہ مبارک صیام:
ماہ رجب المرجب مولائے کائنات ؑ کی ولادت کا مہینہ تھا اسی مہینہ میں ولادت ہوئی یہ مہینہ ان کا ہے اسی لئے ہم ان کے مہمان ہیں لیکن جب ماہ شعبان آیا تو شعبان المعظم رسول اعظمؐ کی سرپرستی میں آئے اور اب جمعہ سے پہلے پہلے ماہ رمضان المبارک آ رہا ہے۔ رمضان اسمائے مبارکہ میں سے ایک نام ہے جس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ کہا گیا ہے خالی رمضان لفظ نہ کہا جائے کیونکہ اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے اس کو رمضان المبارک کہا جائے تو بہتر ہے۔ اس مہینے میں ہم انسان خداوند عالم کے مہمان ہوتے ہیں۔

حضرت رسول اعظم ؐکا خطبہ:
ماہ شعبان کے آخری ایام ہیں انہیں ایام میں رسول اعظم ؐ نے خطبہ دیا اور اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! ایہا الناسکہہ کر بتایا جا رہا ہے کہ یہ صرف ان لوگوں کے لئے نہیں جن کو صحابہ کرام کہا جاتا ہے بلکہ ان کے علاوہ قیامت تک آنے والوں کے لئے بھی میرا یہ پیغام ہے۔
اے لوگو! اب وہ مہینہ آ رہا ہے جو تمام مہینوں سے افضل ہے جس کے دن راتیں تمام دنوں اور راتوں سے افضل ہیں جس میں اعمال صالح بجا لانے کو اﷲ قبول کرتا ہے اور دعا مستجاب اعمال خیر قبول کئے جائیں گے۔ اس میں سانس لینا تسبیح ہے اگر کوئی انسان عبادت کر رہا ہے اس کی عبادت کی منزلت خدا کے ہاں بہت زیادہ ہے۔ یہ واحد مہینہ ہے کہ اگر اس میں آدمی سویا ہوا ہے تو اس کا سونا بھی عبادت سمجھا جائے گا۔

ماہ مبارک کا تقاضا:
کہا جاتا ہے کہ ہر مہینے کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اس مہینے کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرو اس لئے کہ ہر چیز کے لئے موسم بہار ہوتا ہے قرآن مجید کیلئے موسم بہار ماہ مبارک رمضان ہے قرآن مجید کا نزول اسی مہینے میں شروع ہوا۔ زیادہ سے زیادہ قرآنی آیات کی تلاوت کرو ایک آیت کا ثواب پورا قرآن مجید ختم کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ سمجھو کہ قرآن کیا ہے۔ اس میں نمازیں زیادہ پڑھو اور ظہر کی نماز کے بعد ہاتھ لمبا کر کے دعا مانگو اس دعا کو اﷲتعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ اس مہینے میں جتنا لمبا سجدہ کرو گے اس قدر گناہ معاف ہو جائیں گے۔ آئندہ کے لئے تیاری کر لو کہ ہم نے کوئی گناہ نہیں کرنا
فرماتے ہیں کہ اگر آپ کے ہاں نوکر ہیں ملازم ہیں اس مہینہ میں ان سے کام کم لو کیونکہ وہ بھی اﷲ کے مہمان ہیں۔
ملازمین کے ساتھ برتاؤ:
آج آپ اپنے نوکروں پر رحم کریں گے قیامت کے دن آپ پر رحم کیا جائے گا ۔یہ خیال کرو کہ اگر اس کی جگہ میں ہوتا میں کسی کارخانہ میں یا گھر میں ملازم ہوتا تو میرا تصور کیا ہوتا یعنی تو جس طرح اپنے متعلق چاہتے ہو اسی طرح اس کے ساتھ برتائو کرو آج آپ کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ آپ کے ہاں نوکری کر رہا ہے زمانہ بدلنے میں دیر نہیں لگتی اپنے بچوں کو اس ماہ مبارک میں اعمال بجا لانے کو کہو بلکہ ایک روایت میں ہے کہ بچہ اگر آٹھ سال کا ہے پورا روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس سے آدھا روزہ رکھوائیں۔ تاکہ بچے کے ذہن میں بچپنے میں یہ چیز آ جائے کہ ہم نے بھی روزہ رکھنا ہے ان کی عادت ہو جائے۔

بچوں سے پیار:
فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا میں نے بچے کو کبھی پیار نہیں کیا میں نے کبھی بچے کو اٹھایا نہیں فرمایا گیا :من لا یرحم لا یرحم (من لا یحضر الفقیہ۴:۸۳۰،تہذیب الاحکام ۲:۳۲ ، استبصارج۱:۲۶۷،وسائل الشیعہ ۳:۲۸۱)
جو بچوں پر رحم نہیں کرتا قیامت کے دن بچوں سے بھی اس کا حال برا ہو گا اس وقت اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔ اس ماہ مبارک میں بچوں کو سزائیں کم دو کیونکہ یہ بچے بھی اسی طرح مہمان ہیں اﷲ تعالیٰ کے مہمانوں کے ساتھ تمہارا برتائو اچھا ہونا چاہئے سخت نہیں ہونا چاہئے۔اپنے گھروں میں کوشش کرو نماز وقت پر پڑھی جائے ۔کیونکہ آپ اپنے مسؤل ہیں اسی طرح آپ اپنے بچوں اور بیویوں اور گھر والوں کے مسؤل ہیں۔

پورے اعضاء کا روزہ:
ارشاد فرماتے ہیں کسی خطبہ میں کہ صرف یہ خیال نہ کیا کرو کہ صبح سے لے کر شام تک میں نے صرف کھانا پینا نہیں کیونکہ روزہ صرف پیٹ کے لئے نہیں بلکہ آپ کی زبان کا بھی روزہ ہونا چاہئے اپنی خواہشات کو سدھارنے کی کوشش کرو۔ آنکھ کان زبان اور ہاتھ کو بھی روزہ دار بنائو پائوں کو بھی روزہ دار بنائو یعنی ان سے وہ کام انجام نہ دو جو جائز نہیں یعنی تمام اعضاء کا روزہ ہونا چاہئے اگر صرف اپنے پیٹ کا روزہ رکھا زبان سے کچھ بھی کہتے رہیں کانوں سے ہر وقت لغویات سنتے رہیں تو پھر ایسے روزے کے متعلق کہا گیا ہے کہ: ’’بعض روزہ دار ایسے ہوتے ہیں کہ روزہ سے ان کو حصہ صرف دو ہی چیزیں ملیں گی کہ وہ بھوکے رہیں گے، پیاسے رہیں گے اور انہیں کچھ نہیں ملا‘‘۔حقیقتاً روزہ وہ ہے کہ جس میں تمام اعضاء کا روزہ ہو۔

عمل خیر کی تاکید:
حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ دیکھو اس ماہ میں جس قدر زیادہ ہو سکتا ہے عمل خیر کرو اچھے اعمال کرو جب آپ کا میزبان خدا ہے اپنے میزبان کو تکلیف نہ دو غلط کام نہ کرو کہ میزبان کہے عجیب مہمان ہے میرا کہ میری بات تک نہیں مانتا جبکہ مہمان بھی ہے میرا۔ انسان کی فطرت میںہے کہ جس طرح میزبان مہمان کا خیال رکھتا ہے اسی طرح مہمان کو بھی چاہئے کہ میزبان کا خیال رکھے میزبان کی عظمت کا خیال رکھنا چاہئے اس وجہ سے اپنے آپ کو سنبھالنا ہے کہ کوئی بات ایسی نہ کرے کہ جس سے میزبان ناراض ہو جائے۔

خدا کی وسیع رحمت:
تمام تعریفیں خدا تعالیٰ کے لئے ہیں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ حلیم ہے کریم بھی ہے سب گناہوں کو بخش دیتا ہے توبہ کو قبول کرتا ہے وہ سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہے وہ بڑا جبار، قہار بھی ہے کریم و رحیم بھی ہے لیکن اس کا جبر و قہر اس غضب و رحمت کا مقابلہ نہیں کر سکتا خدا فرماتا ہے کہ میری رحمت ہر چیز میں شامل ہے رحمتی کل شئ واسع (مستدرک الوسائل۵:۲۴۵)جتنا بڑا گناہ ہو جائے رحمت ہر شی کو شامل حال ہے اگر میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے لیکن خدا فرماتا ہے کہ میں فرض کر لیتا ہوں اپنے اوپر کہ ان لوگوں پر رحمت کروں جو مومن ہیں عظمت رسول ان کے دلوں میں ہیں۔اس کی بھی پیروی کرتے ہیں تو گویا جو شخص محمد و آل محمد علیہم السلام کی پیروی کرے گا ان کے احکام کی اتباع کرے گا بدنی اعمال مالی اعمال بجا لائے گا خدا فرماتا ہے کہ میں نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ ان پر رحم کروں۔

ستر گنا ثواب :
ماہ مبارک ایسا مہینہ ہے جس میں نیکی کا بھائو اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی آدمی دوسرے مہینوں میں ایک نیکی کرتا ہے تو دس گنا اس کا ثواب ملتا ہے لیکن اگر کوئی ماہ مبارک میں ایک نیکی کرے گا تو ستر گنا ثواب ملتا ہے تو جب نیکیوں کی قیمت بڑھ گئی ہے اس مہینہ میں حضرت محمد مصطفی ؐنے اپنے خطبوں میں فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرو۔

ہر کسی کا احترام:
اس مہینے میں بچے کا خاص خیال رکھو۔ رحم کے ساتھ پیش آئو ساتھ ہی فرمایا کہ آپ کے جو ہم سن ہیں ان کے ساتھ بھی رحم کرو اور آپ سے جو بڑے ہیں ان کے ساتھ بھی محبت سے پیش آئوخود فرماتے ہیں کہ بڑے کی عزت اس لئے کرو کہ وہ مجھ سے بڑا ہے اس نے نیکیاں مجھ سے زیادہ کی ہوں گی اپنے ہم سن کا خیال اس لئے رکھو کہ میں اپنی برائیاں جانتا ہوں ہو سکتا ہے اس کی برائیاں مجھ سے کم ہوں اور جہاں تک چھوٹے کا تعلق ہے اس کے لئے یہ خیال کرو کہ ابھی یہ چھوٹا ہے مجھ سے اس نے عمر کے ایام کم گزارے ہیں اس سے گناہ کم ہوئے ہوں گے میری عمر زیادہ ہے مجھ سے گناہ زیادہ ہوئے ہوں گے۔ تو چھوٹے کا بھی خیال کرو اپنے جیسے کا بھی خیال کرو بڑے کا بھی خیال کرو۔

انفاق فی سبیل اللہ:
فرمایا اس مہینے میں میرے دیئے ہوئے مال سے زیادہ سے زیادہ خرچ کرو اس لئے کہ دینے والا میں ہوں اور پھر بھی نہیں ہے کہ ایک دفعہ میں نے دے دیا ہے تو پھر دوں گا نہیں ایک بار نہیں بلکہ حضرت ؐ فرماتے ہیں بعض اوقات انسان کوئی نیک کام کرتا ہے لیکن اس کے بعد اسے نعمتیں ملتی ہیں بہت زیادہ بعض اوقات انسان غلط کام کرتا ہے اس غلط کام کے فوراً بعد وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ غلطی کرنے والے کو اگر نعمتیں زیادہ ملنی شروع ہو جائیں تو اس کو چاہئے کہ اپنا خیال کرے اپنے آپ کو سبنھالے اس وقت نعمتوں کا زیادہ ملنا خداوند عالم کی رحمت نہیں بلکہ خدا فرماتا ہے ہم درجہ بدرجہ ان کو لے جا رہے ہیں ایسے نتیجے کی طرف کہ جس کو یہ جانتا نہیں ہے۔
لیکن بعض اوقات ایسے ہو جاتے ہیں کہ جب کسی شخص سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے اس کے بعد وہ تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کا مطلب ہی ہے کہ یہ درحقیقت رحمت خدا ہے تاکہ وہ تکلیف اس کو اس طرح جھنجھوڑے گی کہ یہ سوچے گا کہ یہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ یہ تکلیف میرے لئے کیوں آ گئی؟ تو تکلیف ہی کے وقت انسان خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کے علاوہ کم و بیش یاد کرتا ہے۔
گویا اس فرمان کا خلاصہ یہ ہوا کہ گناہ کے بعد اگر کوئی نعمت ملے تو ڈرو خدا کے عذاب سے کہ کہیں یہ نعمت عذاب کی طرف تو نہیں لے جا رہی اگر گناہ کے بعد تکلیف ہو تو اس تکلیف کو اپنے لئے نعمت سمجھو کہ اس تکلیف کی وجہ سے آپ خدا کی طرف متوجہ ہوں گے اور اپنی غلطی پر نادم اور پشیمان ہو کر توجہ کر لیں گے۔لہٰذا حضرت کا ارشاد یہ ہے کہ میرے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرو لوگوں کی مدد کرو۔

سلمان فارسی ؒاور انفاق:
سلمان فارسی عرض کرتے ہیں یا رسول اﷲ کبھی ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو جن کے پاس سب کچھ ہے وہ دے دیں گے لیکن جن کے پاس کچھ نہیں وہ بے چارے کیا کریں گے؟
آپ نے فرمایا کہ اے سلمان! اگر کوئی شخص کھجور کا آدھا حصہ کسی کو مدد کے لئے دے گا یا فرمایا ٹوٹا ہوا قلم کسی طالب علم کو لکھنے کے لئے دے دیتا ہے یا اپنی معمولی چیز کسی ضرورت مند کو دے دیتا ہے خلوص کے ساتھ تو اس کی جزا اتنی زیادہ ملے گی کہ ہزاروں دینے والے بھی اس جزا کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ خدا مقدار کو نہیں دیکھتا کیفیت کو دیکھتا ہے یہ نہیں دیکھتا کہ فلاں نے ہزار رکعتیں پڑھیں فلاں نے دس پڑھیں کیفیت کو دیکھتا ہے کہ دیتے وقت اس کے خیالات کیا تھے؟ کس مقصد کو اس نے سامنے رکھ کر دیا ہے؟ ہزاروں دیتا ہے لیکن مقصد ٹھیک نہیں تو ہزاروں کا اتنا زیادہ ثواب نہیں ہو گا دو چار دینا ہے لیکن مقصد ٹھیک ہے ایسی صورت میں مقصد کے ٹھیک ہونے کی صورت میں یقینا زیادہ ثواب کا مستحق ہو گا۔
گویا اگر کوئی ماہ مبارک میں کسی کی مدد معمولی چیزوں سے بھی کرے تب بھی اس کا ثواب چونکہ ایک نیکی کا ثواب ستر گناہ ہوتا ہے بعض اوقات ہزار ہا گناہ تک پہنچ جاتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے لئے خلوص ہونا چاہئے۔ تو حضرت اپنے اس خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

ماہ محاسبہ:
صبح سے لے کر شام تک دن کو آپ کو روزہ ہو گا رات کو آپ روزہ کے بغیر ہیں آپ ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہیں۔ کہیں میں نے کوئی غلط کام تو نہیں کیا جتنا آپ اپنا محاسبہ کرتے رہیں گے اتنا زیادہ آپ کا ثواب بڑھتا جائے گا اور جب کوئی مومن روزہ دار کے حلق پر خشکی چڑھی ہوئی ہوتی ہے تو وہ پریشان نظر آتا ہے تو حضرت فرماتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے :
اے میرے بندو! دیکھو تمہیں تو کھانے پینے کی ضرورت نہیں ہے میرے اس بندے کو کھانے پینے کی ضرورت تھی یہ کھا پی سکتا تھا کسی سے چھپ کر بھی لیکن نہیں نہیں یہ میرے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبح سے لے کر شام تک بھوکا رہ رہا ہے تکلیف میں مبتلا ہے اس کے ہونٹ خشک ہو چکے ہیں لیکن کبھی توجہ نہیں کر رہا کہ میں نے کوئی چیز کھانی ہے یا نہیں کھانی۔

بے حساب ثواب:
درحقیقت ماہ مبارک میں فرمان ہے کہ آپ ہمیشہ توجہ رکھیں قیامت کے دن کی طرف کہ آج مجھے پیاس محسوس ہو رہی ہے قیامت کے دن بھی پیاس ہو گی آج میں تکلیف میں مبتلا ہوں وہ لوگ جن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ان کی حالت کیا ہوتی ہے؟ تو تجربہ ہوتا ہے مشق ہوتی ہے۔
آخر میں پیغمبرؐ کا ارشاد ہے کہ دیکھو جتنی عبادات بھی ہوتی ہیں ان سب کا ثواب خداوند عالم نے فرما دیا ہے فلاں چیز کا اتنے گنا ،فلاں چیز کا اتنے گنا ثواب ملے گا ۔لیکن جہاں تک روزے کا تعلق ہے تو روزہ درحقیقت ایک حقیقی رابطہ ہے انسان اور خدا کے درمیان۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .