حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین وحید پور حوزہ نیوز ایجنسی میں احکام اور ماہ مبارک رمضان کے شرعی مسائل بیان کرتے ہیں۔ جن کا ترجمہ اردو دان حضرات کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔
بسم الله الرحمن الرحیم
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: إنَّ الصِّیامَ لَیسَ مِنَ الأَکلِ وَالشُّربِ فَقَط؛ إنَّمَا الصِّیامُ مِنَ اللَّغوِ وَالرَّفَثِ۔ یعنی روزہ صرف کھانے پینے سے اجتناب کا نام نہیں بلکہ روزہ بیہودہ باتوں اور دشنام سے پرہیز کا بھی نام ہے۔
مذکورہ سوال (کہ ہم سحری کے وقت بیدار ہوئے اور سحری کھانے میں مشغول ہو گئے اچانک متوجہ ہوئے کہ اذان ہوگئی ہے اور لقمہ ہمارے منہ میں رہ گیا تو اس وقت ہمیں کیا کرنا چاہیے؟) کے جواب میں چند مختلف صورتیں بنتی ہیں۔
ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص بغیر تحقیق اور ٹائم دیکھے کھانا پینا شروع کر دیتا ہے اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہوگئی تھی اور بعض اوقات جب متوجہ ہوتا ہے تو آدھا گھنٹہ قبل اذان ہو چکی ہوتی ہے۔ اس شخص نے اشتباہ کیا اور تحقیق بھی نہیں کی۔ اس صورت میں روزے کی قضا ہوگی لیکن کفارہ نہیں ہوگا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ممکن ہے وہ شخص افق میں اشتباہ کرے کیونکہ ہر کسی کو اپنی اقامت گاہ کے مطابق سحری اور افطاری کرنی چاہیے نہ کہ کسی دوسری جگہ کے افق کے مطابق۔ مثلا تہران اور قم کے اذان صبح کے اوقات میں فرق ہے۔ پس اگر کسی نے مشاہدہ کیا کہ دوسری جگہ کے افق کے مطابق ابھی صبح نہیں ہوئی لیکن اس کے اپنے شہر کے افق کے مطابق صبح ہو گئی ہے تو اسے چاہیے کہ فورا اپنے منہ میں ڈالی ہوئی چیز باہر نکال دے اور کلی کرے۔ کیونکہ اذان ہوگئی تھی اور یہ ابھی کھا رہا تھا۔ یہاں پر بھی روزے کی قضا ہوگی لیکن کفارہ نہیں ہوگا۔
ایک اور صورت یہ ہے کہ افراد گھڑی پر اعتماد کرتے ہوئے کھانے پینے میں مشغول تھے اور انہیں اطمینان تھا کہ ابھی صبح نہیں ہوئی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ صبح تو ہو چکی تھی۔ ان تمام موارد میں روزے کی قضا ہے لیکن کفارہ نہیں ہے۔ فرض کریں کہ ایک کم عمر بچہ بیدار ہوا اوراپنے والدین پر اعتماد کرتے ہوئے کھانے پینے میں مشغول ہو جائے اور بعد میں معلوم ہو کہ جس وقت وہ کھا پی رہا تھا اس وقت صبح ہو چکی تھی۔
یہ سب اس دن نہ کھائیں پیئں اور روزہ رکھیں گے اوربعد میں اس دن کے روزے کی قضا بھی کریں گے لیکن کفارہ نہیں ہے۔
اس سے بھی اہم مسئلہ یہ ہے کہ بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اذان کے آخر تک کھا پی سکتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ اذان ان کے شہر کی ہی ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اذان کے آخر تک کھا سکتے ہیں۔ ان افراد کو یقین ہے کہ صبح ہو گئی ہے اور صبح کے وقت وہ کھانا-پینا عمدی (جان بوجھ کر) شمار ہوگا لہذا اب وہ روزے کی قضا رکھیں گے اور جان بوجھ کر کھانے کی وجہ سے کفارہ بھی ادا کریں گے۔ البتہ ایک صورت میں کفارہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ شخص جاہل مقصر نہ ہو بلکہ جاھل قاصر ہو یعنی وہ واقعا اس کا احتمال ہی نہیں دیتا تھا کہ مسئلہ اس کے علاوہ ہو گا یعنی وہ یہ سمجھتا تھا کہ یہی مسئلہ صحیح ہے۔اور چونکہ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ مسئلہ کے مطابق عمل کر رہا ہے لہذا اس نے مسئلہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی (تو اس صورت میں صرف قضا واجب ہو گی)۔