حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام آغا سید رضی الموسوی نے مرکزی جامع مسجد حسین آباد سکردو میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ انسان پہ ایک وقت آتا ہے ماں باپ اپنی اولاد کی وجہ سے فخر محسوس کرتے ہیں اولاد ان کے لئے باعث عزت باعث شرف باعث سربلندی بنتے ہیں کامیاب اولاد کی وجہ سے والدین معاشرے میں سر اٹھا کر چلتے ہیں اور کبھی اس کے برعکس والدین سر جھکا کرچلتے ہیں شرم سے چلتے ہیں اس لِئے کہ اس کی اولاد نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا حتی اس مرحلے تک بھی پہنچ جاتے ہیں کہ والدین انہیں عاق کردیتے ہیں۔
بالکل یہی حالت آل محمد اور ان کے ماننے والوں کی بھی ہے وہ ہمارے روحانی باپ ہیں ہم ان کے روحانی اولاد ہونے کے ناطے ان کے لئے باعث فخر بنیں آل محمد فخر سے کہیں وہ دیکھو ہمارے شیعہ ہیں جو تقوی پرہیز گاری ایمانداری دیانت داری میں سب سے بہتر ہیں اور اس کی مثال بھی معاشرے میں موجود ہیں سلمان فارسی کو رسول خدا نے کہا یہ ہم اہل بیت میں سے ہے تمام اہل بیت نے سلمان کا ذکر فخر سے کیا کیونکہ سلمان کردار میں آل محمد سے مماثلت رکھتا تھا تقوی زہد فضل کرم ہر چیز میں شبیہ آل محمد تھا آپ بتائیں کیا ہم کردار میں دیانت میں ایمانداری میں زہد میں تقوی میں آل محمد سے مماثلت رکھتے ہیں کیا ہم آل محمد کے لئے باعث فخر ہیں وہ امین ہم خیانت کار وہ صادق ہم جھوٹے وہ زہد وتقوی کے مینار ہم ظلم و فریب کے مینار آل محمد جس نے کبھی ظلم کو سوچا بھی نہیں اور ہم ظلم چھوڑتے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فخر اگر ہم صفات اور ہم خصوصیات ہوں تو ہوتا ہے سلمان ان خوبیوں کا باعث تھا تو آل محمد ان پر ناز کرتے تھے لوگ امیرالمومنین کے پاس آتے اور فخر سے کہتے تھے یا علی ہم آپ کے شیعہ ہیں امیرالمومنین سر سے پاوں تک ایک نگاہ کرتے من کو پڑھنے والا علی صفات کو پرکھنے والا علی نیتوں کو جاننے والا علی ایک نگاہ کرنے کے بعد فرماتے اے شخص جھوٹ مت بولووہ لوگ اپنی دانست میں صحیح تھے جو مولا سے کہہ رہے تھے ہم آپ کے شیعہ ہیں جیسے آج اگر امام زمان تشریف لائیں ہم بالکل ایسے ہی کہیں گے مولا ہم آپ کے شیعہ ہیں اور اگر مولا یہ فرمادیں تم جھوٹ بول رہے ہو ہماری کیا حالت ہوگی کیونکہ ہم پیمانہ آل محمد پر پورا نہیں اترتے اگر مولا فرمائیں تمہارے اندر وہ صفات خصوصیات جو ایک شیعہ کے اندر ہونی چاہیے وہ نہیں ہے تو ہم کیا کریں گے ان تمام باتوں کا مقصد یہ ہے آیا ہم آل محمد کے لئے باعث فخر ہیں یا نہیں۔
ہم جتنا اس دور میں خدا کا شکر ادا کریں کم ہے کیونکہ جس قدر وعظ و نصیحت ہمیں ہوچکی ہے وہ کسی قوم کو نصیب نہیں ہوا محرم صفر ایام ولادت شہادت جمعہ شب جمعہ غرض اتنے مواقع ہمیں میسر آتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہمارے دیگرمکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بھائ ان مواقع سے محروم ہیں اس کے باوجود اگر ہم کہیں ہمیں نصحیت نہیں ہوئ تو خسر الدنیا والاٙخرہ ہے اب بھی اگر حق اور باطل کی ہمیں پہچان نہیں ہے تو پھر کب ہوگی زندگیاں گزرگِئیں بچپن جوانی بڑھاپا بزرگی پہنچ گئ مگر ابھی تک ہم حق اور باطل میں تمیز نہیں کرپائے تو پھر ہم سے بدنصیب کون ہوگا۔
مولانا موصوف نے کہا کہ رسول خد افرماتے ہیں میری امت پر ایک وقت آئے گا پانچ چیزوں سے وہ محبت کریں گے اور پانچ چیزوں کو بھول جائیں گےاگر ایسا ہوا تو میں ان سےبیزار ہوں اور وہ مجھ سے بیزار ہونگے یعنی جن چیزوں کو بھول جانا چاہئے تھا ان سے محبت کریں گے اور جن سےمحبت کرنا چاہیے تھا یاد رکھنا چاہیے تھا انہیں بھول جائیں گے۔
پہلی چیز دنیا سے محبت کریں گے اور آخرت کو بھول جائیں گے۔دوسری چیز مال سے محبت کریں گے اورآخرت کے حساب کتاب کو بھول جائیں گے۔تیسری چیز دنیا کی عورت سے محبت کریں گےاور حوروں کو بھول جائیں گے۔ چوتھی چیز دنیا کے گھر سےمحبت کریں گے اور قبروں کو بھول جائیں گے۔پانچویں چیز خود کو یاد رکھیں گے مگر خدا کو بھول جائیں گے۔
رسول خدا نے فرمایا اگر ایسا ہوا تو میں ان سے بیزار ہونگا لہذا عزیزان اس فانی دنیا میں بہت زیادہ امیدیں مت رکھیں کوشش کریں ہلکا پھلکا رہیں تاکہ آخرت کی سختیوں سے نجات حاصل کرسکیں
اپنے خطبہ دوم میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کی ایک آیت آپ کے سامنے تلاوت کی اور یہ دعا اکثر قنوت میں بھی پڑھا جاتا ہے اس کا اگر مختصر ترجمہ کریں تو یہ بنتا ہے کہ خدایا جو سبق پڑھایا گیا ہے اس کو بھول نہ پاوں انسان خدا سے کہہ رہا ہے کہ خدایا جو سبق میں نے پڑھا ہے ایسا ہو کہ میں اسے بھول نہ پاوں اور اگر میں وہ سبق بھول گیا تو بہت بڑے نقصان سے دوچار ہوجاوں گا یہ دل عجیب چیز ہے یہ کبھی ایک حالت ایک کیفیت میں نہیں رہتا لحظہ بہ لحظہ خیالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں دل کبھی ایک جگہ پر ٹھرتا نہیں ہے آپ کسی سےپیار سے بات کریں گے دل کی کیفیت اور ہوگی غصے سے بات کریں گے کیفیت اور ہوگی۔
دل احساسات کا مجموعہ ہے اس دل کوسنبھال کر رکھنا بہت مشکل کام ہے مگر یہ ہے کہ خدا کی توفیق شامل حال ہو اور دل کے متعلق کافی آیتیں بھی ہیں اور سب سے زیادہ آیتیں بھی دل کے حوالے سے آئ ہیں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے ان کے دلوں میں مرض ہے یعنی جتنی بیماریاں پلتی ہیں پلنے کی جگہ دل ہے دل سے ہی گناہ سرزد ہوتا ہے لہذا مولا امیرالمومنین فرماتے ہیں دل پاکیزہ ہونا چاہیے یعنی گناہوں سے پاکیزہ برائیوں سے پاکیزہ ہو اگر ایسا ہوا تو تمہاری دعاوں سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو تعجب نہ کرنااور یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ خدا دل میں رہتا ہےاور یہ بھی معلوم ہے کہ خدا نجس جگے پر رہتا نہیں ہے اور یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ آل محمد کی اصل جگہ مومن کا دل ہے اب اس دل کو گندے خیالات کے ذریعے ناپاک کرنا حرام ہے کیونکہ ناپاک جگہوں پر آل محمد نہیں رہتے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے خدا ان کے دلوں پر مہر لگادیتا ہے اور جب مہر لگ جاتی ہے تو رسول خدا جیسے انسان جن کی زبان کی مٹھاس سے چرند پرند انسان سب مخلوقات متاثر ہوتے ہیں وہاں اس مہر کی وجہ سے ابولہب اور ابوجہل جیسے لوگ بالکل متاثر نہیں ہوپاتے کیونکہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکا ہے دل پھر چکے ہوتے ہیں دل عجیب چیز ہے جب پھر جاتا ہے تونبی کی ہدایت بھی اثر نہیں کرتی ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے یوم حساب آنے دو تمہاری اولاد مال ازواج یہ سب تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے مگر سوائے قلب سلیم کے کوئی آپ کو اس دن نجات نہیں دلا سکتا لہذا یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے آل محمد(ع) ہمیں ہدایت کا سبق سکھانے آئے جو ان کے اشاروں پر چلا وہ پاس ہوگیا اور جو ان کے مقابل آیا وہ نہ صرف فیل ہوا دوزخ میں اس کا ٹھکانہ ہوا۔
سلمان مقداد ابوذر یہ سب آل محمد کے نقش قدم پر چل کر پاس ہوگئے ان کے دل ہدایت کے بعد پھرے نہیں اور ابوجہل ابولہب ابو سفیان و دیگر یہ سب آل محمد کے مقابل آکر نار دوزخ میں چلے گئے کیونکہ ان کے دل پھر گِئے تھےعمر سعد کی مثال لے لیں عارف تھا مگر دل پھرنے کی وجہ سے آل محمد پر کربلا میں پہلا تیر چلانے والا بنا مسلم ابن عقیل نے دربار ابن زیاد میں عمر ابن سعد کو اس قابل جانا کہ میں اپنی وصیت اس سے کروں مگر عمر سعد ملعون ہوچکا تھا دل پھر چکا تھا لہذا دعا کریں خدا سے کہ یہ دل سالم رہے ایمان پر ثابت رہیں یہ دل اگر دین پر ثابت رہا تو یاد رکھیں دنیا بھی کامیاب ہے اور آخرت بھی کامیاب ہے۔