۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا غافر رضوی

حوزہ/اگر ہم آیات و روایات کے تناظر میں دیکھنا چاہیں تو بخل اور کنجوسی نہایت مذموم قرار پائی ہے اور قناعت ایک ایسی شئے ہے جس کی ہر جگہ مدح و ستائش ملتی ہے۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی چھولسی، دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | اگر ہم آیات و روایات کے تناظر میں دیکھنا چاہیں تو بخل اور کنجوسی نہایت مذموم قرار پائی ہے اور قناعت ایک ایسی شئے ہے جس کی ہر جگہ مدح و ستائش ملتی ہے۔
اسی طرح اسراف اور فضول خرچی قرآن و حدیث حتّیٰ ہمارے معاشرہ کی نظر میں بھی ایک مذموم عمل ہے۔
در حقیقت ہر انسان میں کچھ خصلتیں پائی جاتی ہیں، ان خصلتوں میں کچھ خصلتیں  اچھی ہوتی ہیں جن کو صفات حسنہ کہتے ہیں اور کچھ عادتیں بری ہوتی ہیں جن کو اوصاف سیّئہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اسراف اور بخل دونوں ایسی صفتیں ہیں جو شریعت اسلام کی رو سے نہایت مذموم قرار پائی ہیں۔
اسراف کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہورہا ہے: "...لَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ" (سورہ انعام/۱۴۱)
اسراف نہ کرو کیونکہ خداوند عالم اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
سورہ غافر کی آیت ۴۳ میں ارشاد ہوتا ہے کہ اسراف کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
سورۂ انبیاء کی آیت ۹ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے اسراف کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔

دیگر آیات سے غض نظر اگر صرف انہی تین آیتوں کو ایک ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو نتیجہ اس طرح سامنے آتا ہے:
۱/ خدا نے اسراف کرنے سے منع کیا ہے، اگر اس کے حکم کی نافرمانی ہوگی تو اس کی سزا یقیناً ملے گی۔
۲/ اسراف کرنے والا کسی بھی صورت خدا کا محبوب بندہ نہیں ہوسکتا۔
۳/ خداوند عالم اسراف کرنے والوں کو ہلاک کرے گا.
۴/ اسراف کرنے والے ہلاک ہونے کے بعد جہنم میں جائیں گے ان کی مشام تک جنت کی خوشبو بھی نہیں آئے گی۔

اگر ایک جملہ میں کہنا چاہیں تو اس طرح کہیں گے: خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اسراف کرنے والے ہلاک ہوکر اوندھے منھ جہنم میں جائیں گے۔
اسراف کے مقابلہ میں قناعت ہے یعنی ہر حال میں ضرورت کے مطابق خرچ کرنا اور شکر خدا کرتے رہنا۔
شریعت اسلام نے کچھ الفاظ بتائے ہیں جو نہایت ظریف ہیں،

اگر ان کے معانی پر غور کیا جائے تو ان الفاظ کی ظرافت سمجھ میں آتی ہے:
۱/ قناعت: مالداری اور غربت دونوں عالم میں چادر کے مطابق پیر پھیلاتے ہوئے شکر خدا میں سر نیاز خم کرنا.
۲/ سخاوت: خود بھی کھانا، دوسرے کو بھی کھلانا.
۳/ جود: خود بھوکا رہ کر دوسروں کو سیر و سیراب کرنا.
۴/ کنجوسی: خود کھانا لیکن دوسرے کو کچھ نہ دینا.
۵/ خساست: خود بھی نہ کھانا اور دوسرے کو بھی نہ کھلانا، ایسے انسان کو ہمارے معاشرہ میں "مکّھی چوس" کہا جاتا ہے۔

ان میں سے قناعت، جود اور سخاوت خداوند عالم کے نزدیک بہترین اوصاف ہیں لیکن کنجوسی اور خساست نہایت منفور اور مذموم چیزیں ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا کے ماحول میں ان اوصاف میں سے کون کون سی صفتوں کو اپنایا جائے اور کون کون سے اوصاف سے دامن بچایا جائے؟
اس کا جواب یہ ہوگا کہ اگر ہمارے پاس کافی دولت و ثروت ہے تو اپنے سے نیچے طبقہ والوں کے لئے خاص طور سے اپنے غریب و غرباء عزیزوں کے لئے قدم اٹھائیں اور اس طرح مدد کریں کہ ایک ہاتھ میں دیں تو دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے چہ جائیکہ ہم اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کریں!۔


اگر ہم متوسط طبقہ سے ہیں تو اپنی استطاعت کے مطابق غریبوں کی مدد کریں تاکہ جس طرح ہمارے بچے کھائیں پئیں اسی طرح غریبوں کے گھروں میں بھی چولھا جل سکے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اسراف اور کنجوسی، کرونا کے خطرناک ماحول میں بھی قابل تعریف نہیں ہے بلکہ جس طرح عام طور سے مذموم ہے اسی طرح کرونا کے ماحول میں بھی ایک منفور امر ہے لیکن ایسے خطرناک اور پردرد ماحول میں بھی ہم نے کچھ نئے نئے مسلمانوں کو بہت زیادہ پیاز کھاتے ہوئے دیکھا یعنی جو لوگ چار دن پہلے سے مالداروں کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں ان کے پیر زمین پر نہیں ہیں بلکہ وہ ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔

گرمی کی شدت کو دیکھتے ہوئے ہر انسان ایئر کنڈیشن گاڑی میں سفر کرنے کا خواہاں ہوتا ہے، چلئے آپ کے پاس دولت ہے آپ نے ایک بہترین گاڑی نکلوائی اور اے سی میں سفر کررہے ہیں، خدا کا شکر کیجئے کہ آپ کو خدا نے نوازا ہے لیکن یہ کون سی عقلمندی ہے کہ ایک اے سی کار میں صرف دو لوگ (میاں بیوی) سفر کررہے ہیں اور ایک جگہ پر گاڑی روک دی، اس میں سے شوہر اتر گیا اور بیوی کو گاڑی میں چھوڑ کر اے سی کھلا چھوڑ دیا اور یہ نظارہ کم سے کم تین گھنٹے تک جاری رہا!۔

کیا یہ چیز اسراف کے ضمن میں نہیں آئے گی؟ کیا شوہر کا یہ فرض نہیں تھا کہ بیوی کو اپنے ساتھ لیکر جاتا اور گاڑی کی اے سی کو بند کرتا؟ اگر بیوی کا کچھ کام نہیں تھا تو اپنے ساتھ لیکر کیوں چلا تھا؟

اگر کوئی متوسط طبقہ کا کوئی انسان یا غربت کا مارا کوئی انسان اس نظارہ کو دیکھے گا تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟ آخر اس شوہر کے ذہن میں یہ تمام سوالات کیوں نہیں ابھرے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کم ظرف غبارہ میں اتنی زیادہ ہوا بھر چکی ہے کہ پھٹنے کے قریب ہے۔

اگر واقعاً ہمارے پاس اتنی زیادہ دولت موجود ہے تو ہمارے ذہن میں غریبوں کا خیال کیوں نہیں؟۔

کیا کرونا کے ماحول میں یہ رویّہ زیب دیتا ہے کہ ہم بغیر ضرورت کے بھی اے سی چلائیں اور غریبوں کے بچے بھوک اور پیاس سے تڑپتے رہیں!؟۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر ہماری عیاشی کے سبب کسی غریب کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہوں گے کیونکہ اگر ہم اپنی عیاشی کو تھوڑا کم کرلیتے تو کسی غریب کا چولھا جل سکتا تھا۔

والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .