اتوار 14 جون 2020 - 15:46
کرونا، حقیقت یا افسانہ؟

حوزہ/اب یہ کوئی وبا ہو یا سیاسی داؤ پیچ ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کرونا سے اپنے آپ کو بچانا ہے لہٰذا ہمیں ہر اس چیز کا خیال رکھنا ہوگا جس سے کرونا سے نجات ملنے کے امکانات ہوں

حوزہ نیوز ایجنسی| عالمگیر وبا "کرونا وائرس" کو کوئی بلا کا نام دے رہا ہے تو کوئی عذاب کا. 
یہ عذاب ہو یا بیماری لیکن جو ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ یہ وائرس انسانیت اور بھائی چارگی کا دشمن ہے کیونکہ اس نے سارے برادرانہ کاموں پر پابندی لگادی ہے۔

خوشی ہو یا غم، عقیقہ کی تقریب ہو یا جماعت، دوستانہ پارٹی ہو یا سوگ کا ماحول، ہر انسان کو دوسرے انسان سے خوف لاحق ہے اور اس ماحول میں انسان اپنی جان بچانے کے سرکاری احکام پر دوسو فیصد عمل کر رہا ہے۔
دو فیصد سے آپ کو جھٹکا ضرور لگا ہوگا لیکن حقیقت یہی ہے. سرکار کی طرف سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہو یا ماسک لگانے کی بات، کون ہے جو حال حاضر میں ان چیزوں پر عمل نہیں کر رہا ہے جو سرکار نے بیان کی ہیں؟۔

ہر انسان لاک ڈاؤن پر عمل کرتا نظر آرہا ہے اور دوسری طرف منھ پر ماسک لگائے ہوئے... لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ماسک لگانا کس کے فائدہ میں ہے؟ کیا ہمارے ماسک لگانے سے سرکار کو کوئی فائدہ ہے؟ کیا ہمارے ماسک لگانے سے دودھ والے کو کوئی فائدہ ہے؟ کیا ہمارا ماسک لگانا دوکاندار کو کوئی فائدہ پہنچائے گا؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہوگا: "نہیں..." کیونکہ ماسک انسان اپنی حفاظت کے لئے لگاتا ہے، جو انسان ماسک لگائے نظر آئے تو سمجھو کہ اسے اپنی جان کی پرواہ ہے... کرونا وائرس نے اچھے اچھوں کے نخرے ڈھیلے کردیئے... یہ وبا اکثر روایات کی بنا پر چین سے شروع ہوئی حالانکہ ایک مؤثق سائنسداں کی روایت کے مطابق یو کے سے شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا...

لیکن... اس وبا کے متعلق جو باتیں گردش کر رہی ہیں وہ دو طرح کی ہیں: ایک طرف تو میڈیا پر یہ ہنگامہ آرائیاں ہو رہی ہیں کہ امریکہ میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اس وبا کے شکار ہوچکے ہیں، اٹلی کی جو حالت ہوئی اس سے بھی کوئی ناواقف نہیں... چین کے حالات سب کے پیشِ نظر ہیں...
اور دوسری طرف کبھی کسی ڈاکٹر کا اسٹیٹمینٹ آتا ہے تو کبھی کسی ڈاکٹر کا بیان جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کورونا کی حقیقت کچھ نہیں ہے، یہ صرف بگڑا ہوا نزلہ کھانسی ہے جس کو کرونا کا نام دے دیا گیا ہے اور اس کی کوئی دوا نہیں مل پارہی ہے یہ ڈرامہ کے سوا کچھ نہیں... 

اب ایسے حالات میں دونوں سے کس کی بات مانی جائے!؟.
ایک سوال اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ دنیا کی نظر میں اٹلی اور امریکہ ترقی یافتہ ترین ممالک میں سے ہیں لیکن کرونا (یا بہانۂ کرونا) نے دونوں ممالک کی بولتی بند کردی تو ان ممالک کے سامنے ہندوستان کی کیا بساط ہے؟ اسی سوال کی دوسری شاخ یہ ہے کہ جب وہاں تباہی مچی ہوئی ہے تو ہندوستان کا کیا حال ہوگا؟۔
اگر واقعاً کرونا کی کوئی حقیقت ہوئی تو ایسی صورتِ حال میں ہم نے اپنی حفاظت کے لئے کیا لائحۂ عمل تیار کیا ہے؟۔
حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن آخر کب تک چلے گا؟ حکومت نے تو لاک ڈاؤن کے چار مرحلے رکھے اور پھر انلاک ڈاؤن کی ابتدا ہوگئی! مستقل لاک ڈاؤن ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ حال حاضر میں میڈیم کلاس لوگ بھی سرگردانی کے عالم میں ہیں! مزدوروں کی بات ہی چھوڑیئے... اب یہ تصور کیجئے کہ اگر لاک ڈاؤن اور بھی زیادہ ہوجائے تو اوّل درجہ کے لوگ بھی پریشانی کی وادیوں کے مسافر نظر آئیں گے! پھر عوام کا کیا ہوگا؟۔
انہی تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے حکومت نے یہ اعلان کردیا ہے کہ "لاک ڈاؤن تمام، بارڈر سیل ختم، اب ہر انسان اپنی جان کا ذمہ دار خود ہی ہے"۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ کرونا صرف ایک بہانہ ہے لیکن اس کے پیچھے بہت بڑی سیاست کار فرما ہے۔

اب یہ کوئی وبا ہو یا سیاسی داؤ پیچ ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کرونا سے اپنے آپ کو بچانا ہے لہٰذا ہمیں ہر اس چیز کا خیال رکھنا ہوگا جس سے کرونا سے نجات ملنے کے امکانات ہوں، چاہے وہ سینی ٹائزر ہو یا ڈیٹول، چاہے وہ ماسک ہو یا گرم پانی کا استعمال اور ہر وہ چیز جو قوت مدافعت کے اضافہ باعث بنے اس کو استعمال کرنا ہے مثلاً کلونجی، ادرک، سونٹ، شملا مرچ، گاجر، سبزیجات، پانی کثرت سے پینا، چائے زیادہ پینا وغیرہ۔

اگر ہمیں اپنی جان کی پرواہ ہے تو ان سب باتوں کا خیال  رکھنا پڑے گا کیونکہ جان ہے تو جہان ہے، زندہ رہیں گے تو سب کچھ رہے گا۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی چھولسی،دہلی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .